Neutral Janwar Ya Mazloom
نیوٹرل جانور یا مظلوم
پیارے ملک پاکستان کے سیاست دان بڑے معصوم اور مظلوم ہوتے ہیں۔ جب تک یہ کرسی اقتدارِ پر بیٹھے رہیں۔ ان کی نظریں ماتھے پر رہتی ہیں۔ کان بہرے ہو جاتے ہیں اور آنکھیں صرف اچھا اچھا دیکھنا چاہتی ہیں۔ ان کو اپنے اردگرد وہ کارکنان اچھے لگتے ہیں، جو ہر وقت درباری شاعروں کی طرح ان کی قصیدہ گوئی کریں۔ لیکن کرسی اقتدارِ سے ان کی انہی حرکتوں کے باعث جب اتارا جاتا ہے تو یہ انقلابی بن جاتے ہیں۔ عوام سے گلے شکوے شروع کر دیتے پیں۔
انھیں ساری اخلاقیات، جمہوری اقدار عوام کی اہمیت ووٹ کی تقدیس کا خیال ستانے لگتا ہے۔ یہ عام عوام کے گھروں میں پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کی فکر ان کی راتوں کی نیند اڑا دیتی ہے۔ غریب اور بے بس عوام انھیں اپنی اولاد کی طرح نظر آتی ہے۔ ان کے رہنما اپنے حلقوں کی گلیوں میں گھومتے نظر آتے ہیں۔
بھولی عوام ان کی باتوں میں آکر پھر سے انھیں مظلوم سمجھنا شروع ہو جاتی ہے۔ حالانکہ ان کا ہر گلہ اپنی ذات سے شروع ہو کر اپنی اگلی نسل کے مستقبل کے محفوظ ہونے کے عمل پر ختم ہوتا ہے۔ ان کے پاس اپنے منصف، صحافی، جان چھڑکنے والے کارکنان اور سوشل میڈیا سیل کا بے لگام گھوڑا نا ہو تو یہ دو قدم بھی چلنے کے قابل نہیں ہیں۔
مگر اب حالات کچھ مختلف ہو رہے ہیں۔ عمران خان نے پاکستان کے طول و عرض میں ایسا سیاسی شعور پھیلا دیا ہے کہ جس کا مقابلہ کرنا باقی سیاسی جماعتوں سے مشکل ہو رہا ہے۔
عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں عام عوام کی فلاح کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ میں آلو، پیاز کے ریٹ طے کرنے نہیں آیا ہوں۔ میں تو لوگوں کو شعور دینے کے لیے جاہلوں کی اس سر زمین پر بھیجا گیا ہوں۔
اسی شعور کے تحت انھوں نے ہمیں بتایا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ حالانکہ ہم نصابی کتب میں نیوٹرل کو آج تک کچھ اور ہی سمجھ کر پڑھتے تھے۔ اب ہوا یوں کہ نیوڑلز نے بھی اسی مطلب کو سمجھ لیا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ تو پھر کسی بھی انسان کو جانور بننا کب پسند ہوتا ہے؟ غور و فکر والا سوال ہے۔ چلیں اس کا جواب ہم سب ڈھونڈتے ہیں۔
میری ذاتی رائے میں نیوٹرل مظلوم ہوتا ہے اور پاکستان کے سیاست دان ڈیڑھ ہو شیار ہوتے ہیں۔ اپنی طرف سے بڑی کامیاب سیاست کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ شاید ماضی میں سیاستدان کی سیاست، ذہانت، ڈپلومیسی سے پاکستان کو فوائد حاصل ہوتے ہوں گے۔ مگر مجھے تو یہ لوگ ہمیشہ عہدوں کی بندر بانٹ، آپس کی لڑائی، جھوٹے بیانات دیتے نظر آئے ہیں۔ ان کی ساری زندگی اس کرسی کو بچاتے گزر جاتی ہے۔ جن پر یہ کبھی جم کر نا بیٹھ سکتے ہیں اور نا ہی ان میں اس کی اہلیت ہوتی ہے۔
معزرت کے ساتھ اگر اہلیت ہوتی، تو کسی کوبھی انھیں انقلابی بنانے سے دلچسپی نہیں تھی۔
پاکستان کے سیاست دانوں نے جس دن اپنے رونے چھوڑ کر، پاکستان کے بارے میں سوچ لیا، اس دن ہمارے ملک کو ترقی یافتہ ملک بننے میں دیر نہیں لگے گی۔