Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saira Kanwal/
  4. Mutnaza Kitaben

Mutnaza Kitaben

متنازعہ کتابیں‎

مجھے جب سے کتابیں پڑھنے میں دلچسپی ہوئی میں نے کتابوں کی گفتگو اور خبروں میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی۔ بچوں کی دنیا، تعلیم و تربیت، نونہال، سندباد کی کہانیاں، جاسوسی ناولز سے نکل کر ایک قدم آگے بڑھا۔ اخبار جہاں، فیملی میگزین اورمختلف اخباروں کی دنیا متعارف ہوئی۔ کالج کا زمانہ شروع ہوا خوش قسمتی کے سہلیاں ستارہ آرزو اور کرن آرزو ندیم دونوں کتابوں کی دلدادہ تھیں اور ہیں بھی۔

میں نے بہت سے کتابیں ان کے زریعے بھی پڑھیں۔ مجھے بی اے میں منٹو کے افسانے کا پتا چلا۔ میں نے سوچا کہ منٹو کو پڑھنا چاہیے آخر اس افسانے میں ایسی کیا بات تھی جو عدالت میں کیس ہی دائر کر دیا گیا۔ ستارہ کی ایک سہیلی کے پاس منٹو نامہ تھا۔ اس کے زریعے یہ کتاب منگوائی گئی۔ یقین مانیئے پڑھ کر محسوس ہوا کہ ایسی بھی کوئی خاص بات نہیں تھی جو اتنا شور مچایا گیا کہ عدالت میں کیس ہی کر دیاجائے۔ بلکہ کئی منٹو کے افسانوں میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر ایسا لکھ رہے ہیں۔

جب تنقیدی جائزہ لیا تو محسوس ہوا شاید ان افسانوں نے اتنی ہائپ اس لیے لے لی کی دور کافی گھٹن کا شکار تھا۔ آپ اس دور کے ڈرامے دیکھ لیں۔ رومانس بھی کس قدر ڈھکا چھپا اور محتاط نظر آتا ہے۔ اس کتاب میں منٹو کی عدالت کی کاروائی کو بھی قلمبند کیا گیا تھا۔ پوری کتاب کا حاصل منٹو کا صرف یہ جملہ تھا کہ میں نے معاشرے کا اصل چہرہ دکھایا ہے اگر آپ کو پسند نہی تو اس چہرے کو بدل دیں۔ غرض میں نے منٹو نامہ خریدنے کا پروگرام مؤخر کر دیا۔

کچھ عرصے کے بعد مائی فیوڈل لارڈ کے چرچے شروع ہوئے۔ مجھے اس کتاب کے بارےمیں تب پتا چلا جب تہمینہ درانی شہباز شریف کی زوجہ بن چکی تھیں۔ سوچا اس کتاب کو پڑھا جائے آخر مصطفی کھر کی اسٹوری کیا ہے؟

میری سہیلی کرن نے کہا اس کتاب میں ایسا کچھ نہیں کہ تم خرید کر پیسے ضائع کرو۔ میرے خالو کے پاس اس کا اردو ترجمہ ہے۔ میں تمہیں پڑھنے کے لئے دے دوں گی۔ میں نے مینڈا سائیں۔ کے نام سے چھپنے والا ترجمہ پڑھا اور پڑھ کر سوچا کہ اس کہانی میں کیا کشش ہے؟ ایک شادی شدہ عورت نے اپنی اور شوہر کی داستان عشق بیان کیں ہیں۔ مصطفی کھر کو اس کتاب کے بعد یہ فرق پڑا کہ انہوں نے غالباً آٹھویں شادی عائشہ نام خاتون سے کرلی۔ میں نے سوچا شاید اس دور میں یہ باتیں بہت بڑی ہوتی ہوں گی۔ اس کتاب کو خریدنے کا ارادہ بھی موخر کر دیا۔

یونیورسٹی میں ممتاز مفتی کی لبیک پڑھی۔ پتا چلا اس کتاب پر پابندی لگی تھی۔ مگر اب شاید ہی کوئی کتاب میلہ یا کتاب کی دکان ہوگی جہاں یہ کتاب نظر نہیں آتی۔ مجھے لگا کہ ممتاز مفتی نے لفظوں کا چناؤ ایسا کیا۔ جو روایتی ذہنیت کے لوگوں کے مذہبی جزبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ ورنہ کتاب میں ایسی کوئی خاص بات نظر نہیں آتی۔

ریحام خان کی کتاب کے چرچے شروع ہوئے۔ ستارہ نے کہا نیٹ سے پڑھ لو۔ اس میں ایسی کوئی بات نہی جو کہ عمران خان کے حوالے سے نئی ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے۔ کہ ریحام خان نے بغیر کسی لحاظ کے بے انتہا اوپن لکھا ہے۔ میں نے کچھ اقتباسات پڑھے۔ عمران خان پر نا کوئی دکھ یا حیرانی محسوس ہوئی۔ صرف چند خواتین کے کردار پر شدید دکھ ہوا۔ کیا فائدہ ایسی شہرت اور عہدے کا جو آپ کو اپنی سب سے قیمتی چیز دے کر حاصل ہو۔

ریحام خان کی یہ کتاب اس وقت مارکیٹ میں آئی جب دنیا سمٹ چکی تھی۔ ایک ریڑھی والا بھی اپنے اسمارٹ فون سے ٹائٹینک دیکھنے کے قابل ہو چکا تھا۔ کوئی راز یا کوئی پردہ نہیں رہا۔ سوشل میڈیا نے ہر چیز کا حصول آسان بنا دیا تھا۔

اندازہ کریں جس نورا فتیحی کے رقص کو دیکھنے کے لیے کوئی بیوقوف کروڑوں ڈالر ادا کرتا ہے۔ اس کا رقص ایک ٹرک ڈرائیور اپنے موبائل پر چند سو کے نیٹ پیکج پر دیکھ سکتا ہے۔

مجھے محسوس ہوا ریحام خان کی اس کتاب سے صرف حساس لوگوں کو دکھ ہوگا، لیکن جو عمران خان کے پیروکار ہیں۔ ان کے لیے یہ باتیں نارمل ہوں گی، وجہ یہ کہ وہ لوگ خود ان قبیح افعال میں مبتلا ہیں۔

آج کل ہاجرہ خان کی کتاب کے چرچے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ میں نے سوشل میڈیا پر اس کتاب کے کچھ اقتباسات پڑھے۔ جس سے اندازہ ہوا کہ عمران خان غلاظت کے سمندر میں صرف تیرتا نہیں رہا۔ بلکہ گہرائیوں میں جاکر نئی دنیا بھی دریافت کرتا رہا۔

خاور مانیکا کا انٹرویو سچا ہے یا جھوٹا۔ وہ خود سچا ہے یا جھوٹا۔ یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ متوسط طبقے کی وہ خواتین جو اپنے شوہروں کی دی ہوئی آزادی انجوائے کرکے، جاب، سیاست، میڈیا میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہوں گی۔ وہ سب خود میں چور ہوگئیں۔

عمران خان اور اسکے حواریوں کو کوئی فرق نہیں پڑےگا۔ مگر کتے، بلی کو پالتو جانور کے طور پر رکھنے والے سارے لوگ مشکوک ہو جائینگے۔ سب سے اذیت ناک پہلو یہ ہےکہ علماء اکرام جو عام عوام پر ہر وقت کفر کے فتوے لگانے کو تیار رہتے ہیں۔ وہ نا جانے کہاں سوئے ہوئے ہیں؟

عمران خان پر عدالت میں ہی کیس کر دیں۔ سراج الحق، مولانہ فضل الرحمان، سعد، رضوی، طاہرالقادری، طارق جمیل صاحب کدھر ہیں؟ احتشام الہی ظہیر، ڈاکٹر سبیل صاحب کدھر ہیں؟ کوئی تو زبانی مذمت کر دیتا؟ یا ایمان کے آخری درجے کی طرح دل میں ہی برا سمجھ رہے ہیں؟

یا پھر پاکستانی معاشرے کی ہر گندگی کارپٹ کے نیچے سے نکل چکی ہے اور ہمیں کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان میں شاید ہر چیز کی توقع کی جا سکتی ہے۔

Check Also

Muhabbat Aur Biyah (1)

By Mojahid Mirza