Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Muasharti Rawaiye

Muasharti Rawaiye

معاشرتی رویے

وقت اور حالات کے مطابق ہر شے تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہے۔ اس وقت انسانی رویے بھی اس تبدیلی کے عمل سے متاثر ہو چکے ہیں۔ آپ اپنے اردگرد غور کرنا شروع کریں۔ ہم میں سے ہر شخص خود کو عقل کل سمجھنا شروع ہوگیا ہے۔ خاص طور پر اگر وہ مالی طور پر آسودہ ہے پھر تو سونے پر سہاگہ ہے۔ ہم لوگ انتہائی بےدردی سے دوسروں کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن خود پر ہم چھوٹی سی بات بھی برداشت نہیں کرتے۔

خوامخواہ کی بے مقصد چالاکیاں، دوسروں کو استعمال کرنا۔ غیر محسوس انداز میں دوسرے سے فائدہ اٹھانا اور کامیابی حاصل کرنے پر فتح کے قہقہے لگانا، کیا ہم انسانوں کو زیب دیتا ہے؟ شاید ملکی حالات، معاشی پریشانیوں نے ہر شخص کو ذہنی بیمار بنا دیا ہے۔ انسانی فطرت کی وہ کثافتیں جو تربیت اور دین اسلام کی لطافتوں سے دھلتی تھیں۔ اب پھر شدت پکڑ رہی ہیں۔ معاشرے میں خود غرضی انتہا پر ہے۔ عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ کوئی ہمیں کچھ کہ کر جائے کہاں۔ جھوٹ کا یہ حال ہے کہ کسی بات پر اعتبار کرنے کو دل نہیں کرتا۔ باہمی خلوص ناپید ہو چکا ہے۔

ہر کوئی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہے۔ لوگ چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لئے خود کو دوسروں کی نظروں سے گرا کر بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ یہ سب کچھ رفتہ رفتہ ہوا اور اس میں بہت زیادہ ہاتھ اس ملک کے صاحب اقتدار افراد کا ہے۔ جب سیاسی کارکن ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑ کر تصاویر بنائیں گے۔ جب لوگوں کو کہا جائے گا۔ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلے خود کریں۔ جب عزت صرف اپنی اپنی جماعت کی عورتوں کی ہوگی تو عام عوام کے اندر یہ معاشرتی رویے کیسے سرائیت نہیں کریں گے؟

عوام کی تربیت اس ماحول سے ہی ہوتی ہے جو لیڈر بناتے ہیں۔ ایک لیڈر جب خوش اخلاق ہوگا۔ اس کے فالورز بھی خوش اخلاقی کی روش پکڑیں گے۔ ایک لیڈر جب کھلے دل سے مہمانداری کرے گا تو اس کے کارکن بھی کھانے پر جھبٹنے کی بجائے پہلے آپ، بولیں گے۔ اور یہ رویہ آہستہ آہستہ پورے معاشرے میں سرایت کر جائے گا۔ اس وقت صرف مالی طور پر نہیں بلکہ اخلاقی طور پر اس ملک کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ ذہانت، چالاکی کی گندگی میں ڈوب چکی ہے۔

کسی بھی لیڈر کو اس کی فکر کیوں نہیں؟ مالی خسارے تو پورے ہو جائیں گے۔ اخلاقی زوال کیسے دوبارہ نمو پائے گا؟

خدارا اس ملک کے حال پر رحم کریں اور اس معاشرے کے بگاڑ کو ختم کرنے کے لئے اپنی نسلوں کی تربیت پر توجہ دیں۔ اپنے بچوں کو ذہانت اور چالاکی کا فرق سمجھائیں۔ کیوں کہ لومڑی جتنی بھی چالاک اور ہوشیار ہو جائے جنگل کا بادشاہ ہمیشہ شیر ہی ہوتا ہے۔

Check Also

Tareekhi Merger

By Khateeb Ahmad