Masail Aur Tarah Ke Hain
مسائل اور طرح کے ہیں
ہمارے پیارے ملک پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کا رہنما کم سے کم عمر کی ستر بہاریں دیکھ چکا ہے۔ زیادہ کی تو کوئی حد ہی نہیں۔ ان کی عمر بڑھتی گئی مگر سوچ نہیں۔ ان کے تمام طریقے اور انداز وہی پرانے ہیں اور جب یہ اپنی سیاست میں جدت لانے کی کوشش کرتے ہیں تو انتہائی بھونڈے انداز کی وجہ سے یہ کوشش ناکام ہو جاتی ہے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ ان لوگوں کے ارد گرد حقیقی عوام کم اور خوشامدی ٹولہ زیادہ ہوتا ہے۔ یہ جب عوام کو اپنے رخ روشن کا دیدار کرواتے ہیں تو اس علاقے کا ایم پی اے یا ایم این موقع کی مناسبت سے اپنے کارکنان کو ان کے اردگرد اکھٹا کر دیتا ہے اور یہ وہی کچھ سنتے ہیں جو ان کے کان سننا چاہتے ہیں اور دیکھتے بھی وہی ہیں جو ان کی آنکھیں دیکھنا چاہتی ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان جمہوری قوتوں نے پہنچایا۔ صحافی اور سیاست دان ہر وقت جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں۔ اداروں پر تنقید کرتے ہیں، مگر انھیں اتنی فکر عوام کے مسائل کی کبھی نہیں ہوئی۔ یہ عوام کو استعمال کرتے ہیں اور عوام بخوشی استعمال ہوتے ہیں۔
اندازہ کریں کہ نو مئی کا دلخراش سانحہ ابھی بھولا نہیں کہ دوسرے لوگوں نے گلے شروع کر دئیے کہ عوام میرے لیے باہر کیوں نہیں نکلی؟
مجھے یہ بات سن کر معصومیت پر بڑی ہنسی آئی۔ میری گزارش ہے کہ تسلی رکھیں، عوام کو اتنا سمجھدار نا سمجھیں کہ وہ ایسے اقدامات اپنی مرضی سے اٹھانے لگیں۔ آپ کے بھائی یا آپ خود کال دیتے تو نو مئی سے بڑھ کر سانحہ ہو جاتا کیوں کہ آپ کی محبت کے پیروکار بھی کم نہیں۔
ملک و قوم کے لیے جو خدمات جس سیاست دان کی حکومت نے بھی انجام دی ہیں۔ وہ سر آنکھوں پر۔۔ مگر معزرت کے ساتھ پیسہ تو عوام کیے ٹیکسز کا ہی تھا۔ کسی نے ذاتی پیسوں سے تو کچھ نہیں کیا۔ ہاں اپنی زکوٰۃ اور خیرات سے جو فلاحی ادارے بنائے۔ ان کا اجر تو اللہ کے حضور ہی ملے گا۔ آپ نے عزت اور اقتدارِ کو انجوائے بھی تو کیا۔۔ سودا گھاٹے کا تو نہیں تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ اقتدار کے کھیل میں سب سیاست دانوں کی ترجیحات مختلف نہیں۔
جب تک کرسی ان کے پاس سب ٹھیک ہے اور جب نا ہو تو انقلاب زندہ باد۔
کیا کریں ہوٹر والی گاڑی کے مزے محبوب کی گالیوں کی طرح ہیں۔ کھا کر بھی طبعیت بے مزہ نہیں ہوتی اور یہ صحافی جو ہر وقت آزادی رائے کا پرچار کرتے ہیں۔ جو ریٹنگ اور ویوز عوام سے لیتے ہیں اور فکر اشرافیہ کی کرتے ہیں بلکہ اس فکر میں گھلتےجارہے ہیں۔ مہنگی بجلی، پہنچ سے دور اشیائے خوردونوش پر کسی کا کالم نہیں نظر آتا۔ مگر کسی سیاسی رہنما کو گرم ہوا بھی چھو جائے۔۔ اپنے قلم کو تلوار بنا کر میدان میں اتر آتے ہیں۔ بس نہی چلتا اس تلوار سے سب کی گردنیں اڑا دیں۔ روزگار کی فکر میں بے حال ہو جاتے ہیں، سمجھ نہیں آتا کہ کیا کچھ کر ڈالیں۔ ہمارے ملک کو جنگل بنا دیتے ہیں۔
کسی کو جنگل کا بادشاہ، کوئی زخمی چیتا اور کوئی شیر، بس یہ نہیں بتاتے کہ اس جنگل میں خود کون سے جانور ہیں؟ اس ملک میں اتنی جنسی گھٹن ہے کہ خواتین تو دور کی بات بچے، لڑکے اور خواجہ سرا بھی محفوظ نہیں۔ ہمیں کیا پتا کون کس گندگی کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔ خواجہ سراؤں کو اتنی جرات انہی لوگوں نے دی ہے جو آج خود پر حملے کروا رہے ہیں۔ عام عوام کو ان کے رازوں کا کیا علم؟ مگر یہ صحافی جو ہیں، ہر ایسے عمل اور واقعے پر عوام کی ذہن سازی کے لیے۔ فورا میدان میں کود پڑتے ہیں۔ کچھ تو مکمل غیر جانبدار رہتے ہیں۔ مگر کچھ اپنے ولائتی آقاؤں کو خوش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
عام عوام کے مسائل اور طرح کے ہیں۔ مگر کسی کو فکر نہیں۔ بیمار اور مالی طور غیر مستحکم عوام اشرافیہ کو بہت سوٹ کرتی ہے۔ کیوں کہ ان کی من مانیوں پر بولنے والے اپنے مسائل میں الجھے رہتے ہیں۔ اور خوشامدی ٹولہ سب اچھا ہے کی نوید سناتا رہتا ہے۔
کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں اور اقتدار اندھا، بہرا ہوتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ تو مسلم ہے۔ روز محشر کی سچائی سےتو کسی کو انکار نہیں۔ بس پھر عام عوام اسی پر آس لگا کر زندگی کے تلخ ایام گزارتے ہیں۔