Kya Hota
کیا ہوتا
انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ کوئی غلط عمل کرنے کے بعد، پچھتاوے کی آگ میں جلتا ہے۔ بہت کم ایسے بہادر ہوتے ہیں جو اپنے ہر فعل پر ڈٹے رہتے ہیں، لیکن یاد رکھیں غلط عمل پر ڈٹے رہنے والا شخص اپنے ساتھ دوسروں کی بھی بربادی پھیرتا ہے۔
عام عوام سوچتی ہے کہ کیا ہوتا اگر ایک شخص جو کہ طویل جدوجہد کے بعد اقتدارِ میں آیا تھا، عقل سے کام لیتا تو آج حالات اس نہج پر نا پہنچتے۔
کیا ہو جاتا جو وہ اہنی پہلی الیکشن کمپین کے اشتہار میں نوجوانوں کو ڈنڈے کی بجائے بلا پکڑ کر مارنے کی ترغیب نا دیتا۔ کسی نے بھی نہیں سوچا کہ بلا تو کھیلنے کے لیے استعمال ہوتا ہے نا کہ دشمنوں ہر وار کرنے کے لیے۔
کیا ہوتا جو ایک شخص جلسوں میں عوام کے سامنے ہر مرد اور خاتون کی تفریق کیے بغیر ہر ایک کی عزت نا اچھالتا۔ کیا ہوتا جو عوام کو تشدد اور بد زبانی پر نا اکساتا۔
کیا ہوتا جو ایک شخص انتقام کی آگ میں نا جلتا۔ دوسروں کی جیل میں ڈال کر فرعون نا بنتا۔
کیا ہو جاتا جو اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کے بعد عاجزی اختیار کرتے ہوئے صرف عوام عوام کی فلاح کے لیے کام کیا جاتا۔
کیا ہو جاتا جو نا اہل لوگوں کو عہدے دینے سے گریز کیا جاتا۔ زوجہ محترمہ کو حد میں رکھا جاتا۔ ملک کو کھیل کا میدان نا سمجھا جاتا۔
نوجوانوں کو سوشل میڈیا سیل کے زریعے برباد نا کیا جاتا۔ ان کے اخلاق تباہ نا کیے جاتے۔ انھی عورت کی تذلیل نا سکھائی جاتی۔
کیا تھا جو اپنی صلاحیتوں کو اپنی قابلیت کے مطابق استعمال کیا جاتا اور سب باتیں ایک طرف، کیا تھا جو نو مئی نا کیا جاتا۔ عوام کے دل پر وار نا کیا جاتا، مسجد نبوی کی بے حرمتی نا کی جاتی۔ شہداء کی عزت پیروں تلے نا روندی جاتی۔
شہداء کے لواحقین کے دکھی دلوں کو مزید دکھ نا دیا جاتا۔ ملک میں جلاؤ گھیراؤ کرکے خوف وہراس نا پھیلایا جاتا۔
کیا تھا، جو اعلیٰ عہدے داروں کے دلوں میں لالچ اور نفاق نا پیدا کیا جاتا۔ دوسروں کی خلوت کے لمحوں کو عکسبند کرکے، ان کے عیب نا اچھالے جاتے۔ لوگوں کو بلیک میل نا کیا جاتا۔
معاشرے میں شرم و حیا کی سب ریڈ لائنیز کراس نا کی جاتیں۔
تو شاید آج حالات اتنے تکلیف دہ نا ہوتے۔
مگر جن کے پاس عمر کے چند سال باقی ہوں۔ کھونے کے لیے خاندان یا کوئی ذاتی معاشی سلسلہ ناہو، تو وہ خود کش بمبار بن جاتے ہیں۔ پھر وہ جب چاہیں، کسی کی عزت، جان پر حملہ کر دیں۔
ہمارے ایک جید، فراست سے بھرپور صحافی اور تجزیہ نگار نے اپنے ایک کالم میں بکرے اور بھینسے کی لڑائی کا احوال قلمبند کیا۔
ان سے اختلاف کی جرآت تو دور کی بات سوچ بھی نہیں ہے۔
پر دل میں خیال آتا ہےکہ لڑائی بکرے اور بھینسے کی نہیں ہے۔ بلکہ دو بھینسوں کی ہے۔ فرق صرف اتنا ہےکہ ایک بھینسے کی آنکھیں کھلی ہیں اور اسے لڑائی کے تمام داؤ پیچ ازبر ہیں۔ جب کے دوسرے بھینسے کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے اور دماغ ممنوعہ اشیاء کے بے دریغ استعمال کے سبب سن ہو کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ اس لیے وہ حملہ کرتے وقت سامنے کی دیوار نہیں دیکھ پاتا اور اسے دشمن سمجھ کر بار بار حملہ کرتے ہوئے اپنے سینگ تڑوا بیٹھا ہے۔
عقلمند بھینسا ایک طرف کھڑا اسے تھکتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ بیوقوف بھینسا تھک چکا ہے۔ نڈھال ہو کر گرنے کے قریب ہے۔ مگر مان نہیں رہا۔
کہانی بس اتنی سی ہے۔۔
شاید۔۔