Khush Qismati Ki Chamak
خوش قسمتی کی چمک
شادی کے بعد میں نے ایک انگلش میڈیم اسکول میں جاب کی اور پہلی مرتبہ نرسری کے چھوٹے بچوں کو پڑھایا۔ یہ تجربہ بے حد دلچسپ تھا۔ بڑے بچوں کی نسبت چھوٹے بچوں کو پڑھانا تھوڑا سا مشکل ضرور تھا۔ مگر ان بچوں کی معصومیت بہت دلکش تھی۔ یہ بچے منافق نہیں ہوتے اور ٹیچرز سے اپنی محبت یا نا پسندیدگی کا اظہار دھڑلے سے کرتے ہیں۔ ان بچوں کے والدین ان سے بھی زیادہ دلچسپ ہوتے ہیں۔ میں آپ کو ایک چھوٹا سا واقعہ سناتی ہوں۔
پیرینٹس میٹنگ میں ایک والد محترم تشریف لائے۔ جن کا پہلا بیٹا میرا اسٹوڈنٹ تھا۔ ایوریج بچہ تھا اور پوزیشن کی دوڑ میں دسویں نمبر پر آیا تھا۔ میں نے والد کے سامنے پیپرز فائل رکھی اور رزلٹ کارڈ تھماتے ہوئے، رٹے ہوئے مخصوص جملے بولے، بہت ذہین بچہ ہے، تھوڑی سی محنت کر لے لکھائی پر توجہ دے تو پہلی تین پوزیشنز میں آ سکتا ہے۔ والد نے پیپرز چیک کرتے ہوئے میری بات سنی اور فائل ایک طرف رکھ دی۔ اور بولے۔۔ میرا بچہ فرسٹ کیوں نہیں آیا؟ میں نے پھر تسلی دیتے ہوئے کہا، اگلی مرتبہ پوزیشن لے گا۔ ذہین بچہ ہے۔ والد نے فوراََ میری بات اچکی اور کہا جب ذہین ہے تو فرسٹ کیوں نہیں آیا؟
میں نے آرام سے پھر سمجھانا شروع کیا۔ فائل پکڑ کر چھوٹی موٹی غلطیوں کی نشاندھی کی تا کہ معاملہ مزید نا بڑھے۔ مگر بچے کے والد محترم ایک ہی رٹ لگائے بیٹھے کہ میرا بچہ فرسٹ کیوں نہیں آیا؟ اس سے پہلے بات بڑھتی اور اردگرد کے والدین بھی اپنا غصہ نکالنا شروع کرتے، میں نے والد محترم سے کہا۔ سر آپ کا بچہ بہت ذہین ہے میں مانتی ہوں۔ مگر پہلی پوزیشن وہی حاصل کرتا ہے۔ جو ذہین ہونے کے ساتھ خوش قسمت بھی ہو۔ کیوں کہ پاکستان کروڑوں کا ملک ہی مگر صدر یا وزیراعظم ایک ہی شخص بنتا ہے۔ وجہ اس کی قسمت عروج پر ہوتی ہے۔
میں نے بچے کے والد کو ایک دم خاموش ہوتے دیکھا۔ اس نے فائل اٹھائی اور خدا حافظ کہہ کر نکل گیا۔ میں نے بھی معاملہ سلجھنے پر شکر ادا کیا اور کام میں مصروف ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ ناقدین مجھ پر بے حس، خود غرض، اور ظالم ہونے کا الزام لگا دیں۔ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
پاکستان پچیس کروڑ کا ملک ہے۔ اس میں ذہین، پڑھے لکھے لوگوں کی ایک کثیر تعداد ہے۔ مگر میں نے ذہانت اور فرسٹ پوزیشن کے بل بوتے پر صرف ایک یا دو فیصد لوگوں کو کامیاب ہوتے دیکھا ہے۔ گورنمنٹ یا پرائیویٹ جابز کرنے والے تو ایک طرف۔ میں نے گھریلو سطح پر کم تعلیم یافتہ لڑکیوں کو سسرال اور شوہروں کے دلوں پر راج کرتے دیکھا ہے۔ اسے خوش قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی سیاست کو دیکھ لیں۔ کیا عارف علوی میں کوئی بھی قابلیت آپ کو نظر آتی ہے۔ مگر وہ ملک کا صدر بنا اور عزت سے ریٹائرمنٹ کے بعد مراعات سے لطف اٹھا رہا ہے۔ عمران خان جس میں نا قابلیت نا ہی کردار اور ناہی کوئی صلاحیت ملک کا وزیراعظم بن گیا اور اب بھی ٹھاٹھ سے جیل میں بیٹھا پورے ملک کے میڈیا کی توجہ حاصل کیے ہوئے ہے۔ مراد سعید جس کی اسکرین پر شکل دیکھ کر فاوئنین ہاؤس کا پتا بتانے کو دل چاہتا تھا اس نے بہترین وزیر کا تمغہ حاصل کیا۔
یہ جو بڑے جید صحافی، ادیب اور دانشور نظر آتے ہیں۔ سب نہیں مگر ان میں سے بہت سے افراد پر توجہ کریں۔ ان کے ذرائع نا ہو تو ان کے پاس بیچنے کے لیے کیا مال ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ مگر خوش قسمتی کے بادل نے ان سب لوگوں کو ڈھانپ رکھا ہے۔ محنت بھی تب ہی رنگ لاتی ہے، جب خوش قسمتی کی چمک ساتھ ہو۔ ورنہ مزدور سے بڑھ کر کون محنتی ہوگا؟
میرا کہنے کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ ہم محنت چھوڑ دیں اور مایوس ہو کر بیٹھ جائیں۔ مقصد یہ ہے کہ بھرپور محنت کریں، کوشش کریں، مگر پھر بھی مقصد حاصل نا ہو تو، ڈپریشن کا شکار مت ہوں۔ دعا ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے لوح محفوظ میں لکھے گئے فیصلے بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔
دعا آپ کے دل کو سکون دیتی ہے۔ آپ کی قسمت کی دھندلاہٹ کو ایسی چمک عطا کرتی ہے کہ دنیا کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ ایک استاد کی حیثیت سے میری صدق دل سے یہ دعا ہے کہ اس معصوم بچے کو اللہ تعالیٰ ایک بہترین اور کامیاب شخص بنائے اور سب والدین کو اپنی اولاد سے سکون عطا فرمائے آمین۔