Kam Zarf Log
کم ظرف لوگ
اورئینٹل کالج میں ہمارے ایک بہت قابل احترام استاد تھے۔ سر تحسین فراقی صاحب۔ جس شخص کو ادب اور شاعری سے زرا بھر بھی دلچسپی ہو، وہ ان کی کلاس اٹینڈ کرنے کے بعد ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ میں نے اتنی خوبصورتی سے آج تک کسی کو اشعار پڑھتے نہیں سنا تھا۔ یقین مائیے انھوں نے ایک گھنٹے کے پیریڈ میں ہمیں مثنوی کے ساٹھ ستر کے قریب اشعار خود پڑھتے ہوئے یاد کروا دئیے تھے۔ تمام طالب علموں پر خصوصی توجہ اور شفقت فرماتے۔ استاد محترم اُردو ادب کی ترویج کے حوالے سے اکثر دوسرے ممالک کا دورہِ بھی کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ کچھ دنوں کے لیے ہندوستان کے دورے پر گئے۔ واپسی پر جب دوبارہ جامعہ تشریف لائے تو ہم نے ان کے دورے کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔
استادِ محترم نے فرمایا کہ میں وہاں کوئی سیاسی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مگر میرے ہندوستانی میزبان نے مجھے اکسا کر طنزیہ گفتگو کرنے کی کوشش کی۔ تو پھر میں نے بھی انھیں آئینہ دکھلایا کہ آپ لوگ ہمارے ملک کے ساتھ کیا کچھ کر رہے ہیں؟ اپنی اداؤں پر بھی غور فرمائیں۔ ہم نے حیرانی سے دریافت کیا کہ آپ کو ان کے ملک میں ان کے ہی خلاف بولتے گبھراہٹ نہیں محسوس ہوئی، ڈر نہیں لگا؟
استاد محترم کا جواب آج تک بھولا نہیں۔ استاد محترم نے فرمایا آپ لوگ درست سوچ رہے ہیں۔ ہم کسی کا ایک نوالہ بھی کھائیں تو ہماری نظریں جھک جاتی ہیں۔ ہم اس شخص کے سامنے احسان مندی کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں حق بات وقت پر ہی کہی جاتی ہے۔ اگر میں پاکستان واپس آنے کے بعد وہ باتیں جماعت میں کھڑے ہو کر کرتا، تو ان باتوں کی کوئی اہمیت نا ہوتی۔ شاید وہ لوگ اگلے سال اس تقریب میں نا بلائیں، مگر میرا ضمیر مطمئن رہے گا۔
آج بہت سالوں بعد استادِ محترم تحسین فراقی صاحب کی یہ بات شدت سے یاد آئی۔ کیا اس بات کے تناظر میں مجھ سمیت ہم سب کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ ہمارے پیارے ملک پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟
جب کوئی سیاسی جماعت یا اعلیٰ عسکری عہدے دار جانے لگتے ہیں تو ہم کاغذی شیر ان پر دھاڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب تک کوئی جماعت حکمران جماعت ہو خوشامدیوں کا ایک گروہ ہر وقت ان کے اردگرد منڈلاتا رہتا ہے۔ یہ حکمران جماعت ان کی آنکھوں سے دیکھتی، ان کے کانوں سے سنتی ہے۔ پھر فیصلہ اپنے دماغ سے کر بھی لیں تو کیا فائدہ؟ اور جب ان کا دور حکومت ختم ہوتا ہے، یہ لوگ ادھر ادھر غائب ہو جاتے ہیں۔ کسی نئے آقا کی تلاش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح جب کوئی اعلیٰ عسکری عہدے پر تعینات شخص اپنی پوری طاقت کے ساتھ سیاہ یا سفید کر رہا ہوتا ہے، تو سب گونگے، بہرے اور اندھے بنے ہوتے ہیں اور جب عہدے دار کی ملازمت مدت پوری ہو اور وہ ریٹائرڈ ہو جائے تو یہ ٹولہ بڑھ چڑھ کر تنقید کرتا ہے۔ صاحب کو نام کے ساتھ پکارنا شروع کر دیتا ہے۔ بڑی بہادری سے کرسی سے اچھل اچھل کر باتیں کرتا ہے اور سب سے بڑا ظلم یہ کہ آنے والے کی تعریف کے راگ الاپنا شروع کر دیتا ہے؟
آخر یہ بے ضمیر لوگ کون ہیں؟ ان کے اندر زرا بھی گریس نہیں؟ انتہائی افسوس کہ اس ٹولے میں بے شمار مشہور صحافی بھی شامل ہیں۔ یہ وہ صحافی ہیں، جو مرنے والوں کو آنجہانی قرار دیتے تھے۔ اب کچھ عرصہ قبل ہی مرحوم کا لفظ بولنے لگے ہیں۔
آپ لوگ عوام کے سامنے شرمندہ بھی نہیں ہوتے؟ عہدوں کی بندر بانٹ میں اپنے وقار کو ہی کھو دیتے ہیں۔
مانتی ہوں کہ وقت کے ساتھ انسانی خیالات بدلتے رہتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ مگر پھر بھی ہمیں کچھ تو لحاظ اور اعتدال سے کام لینا چاہیے۔ کبھی تو ہم نعوذ باللہ من ذالک دوسرے کو خدا ہی بنا دیتے ہیں اور پھر ابلیس کہنا شروع کر دیتے ہیں۔
مجھے نہیں پتا کون اعلیٰ عسکری عہدے دار درست تھا یا غلط؟ مجھے نہیں پتا کہ ماسوائے تحریک انصاف کے کون سی سیاسی جماعت غلط ہے یا درست؟
میں عام عوام اور عام سوچ رکھتے ہوئے صرف یہ سوچتی ہوں کہ اگر تنقید کرنی ہے تو وقت پر کی جائے، اور اتنی بہادری دکھانا ممکن نہیں تو پھر بعد میں بھی بہادر نا بنا جائے۔ خاموشی اختیار کی جائے۔ ہر گناہگار دنیاوی شکنجے سے بچ بھی جائے تو آخرت میں اپنے اعمال کا ضرور ذمہ دار ہوگا۔
خوشامدی ٹولے کسی کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے۔ یہ صرف عہدوں اور اقتدارِ کے غلام ہوتے ہیں اور انہی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے مر جاتے ہیں۔ کوئی ان کا ذکر بھی اچھے الفاظ میں نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کم ظرف لوگوں سے محفوظ رکھے۔