Kalay Coat Ki Taqat
کالے کوٹ کی طاقت
پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ یہ اگر مشکل کام ہے تو دس سے پندرہ سال پیچھے چلے جائیں۔ آپ کو ہر معاملےمیں وکلاء کا ایک مضبوط کردار نظر آئے گا۔ میں نے افتخار چودھری کی بحالی تحریک کو ہر لمحہ میڈیا پر دیکھا۔ مجھے عام پاکستانیوں کی طرح یہ محسوس ہوا کہ افتخار چودھری کی بحالی سے پورا پاکستان بدل جائے گا۔ ہر طرف امن، خوشحالی کا دور دورہ ہو جائے گا۔ آمریت کے اندھیرے ختم ہو جائیں گے اور جمہوریت، امن قانون کا سورج ابھرے گا۔ جو ہم عام عوام کی زندگیوں کو روشن کر دے گا۔
عام پاکستانیوں کی طرح چوہدری اعتزاز احسن اور علی احمد کرد مجھے ایک ہیرو لگ رہے تھے۔ مختلف ٹی وی چینلز کے اینکر پرسنز سب سے بڑے محب الوطن لگ رہے تھے۔
نواز شریف اور آصف علی زرداری کی پریس کانفرنس سے زیادہ اہم کچھ نہیں تھا اور پھر پرویز مشرف مرحوم کے استعفی کے بعد لگا، حق اور سچ کو فتح حاصل ہوگئی۔ اب کوئی قوت پاکستان کو ترقی سے نہیں روک سکتی۔ اس تحریک کی کامیابی کے بعد جب عام عوام اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے تو ایک مشہور مگر شرارتی اینکر پرسن نے ایک اٹھارہ انیس سال کے پٹھان لڑکے سے پوچھا "آپ کہاں سے آئے ہیں وہ بولا میں پشاور سے آیا ہوں۔ اینکر پرسن کے استفسار پر بولا افتخار چودھری بحال ہوگا تو مجھے نوکری ملے گی۔ اینکر پرسن نے کہا کہ ان کی بحالی سے آپ کو نوکری کیسے ملے گی۔ تو لڑکا لاجواب ہو کر مسکرانے لگا۔
اس کے بعد سب نے دیکھا کہ کیا کچھ ہوا، افتخار چودھری کے بیٹے سے لے کر، ازخود نوٹس کا سفر عوام کے سامنے ہے۔
پھر اسی عدلیہ بحالی کے مرکزی کردار نواز شریف کو ان کالے کوٹ والوں کے ہاتھوں پریشان دیکھا۔ جن کا ماتھا چومنے کی خواہش کا اظہار انھوں نے میڈیا کے سامنے کیا تھا۔
وکلاء کی تحریک کے سب ہیروز نا جانے کہاں منہ چھپا کر بیٹھ گئے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد دوبارہ حسان نیازی کو ہسپتال پر کالے کوٹوں کی فورس کے ساتھ حملہ کرتے دیکھا۔ حسان نیازی کی خود اعتمادی دیکھ کر لگ رہا تھا کہ قانون ان کے پاؤں کی ٹھوکر پر ہے اور ہم عام عوام پریشان ہو کر سوچ رہے تھے کہ یہ پاکستان ہے یا کوئی اور ملک؟
عام عوام نے ثاقب نثارِ کے ڈیم فنڈ سے گڈ ٹو سی یو کا سفر بھی دیکھا۔ یقین جانئیے عام عوام کو اپنی بے مائیگی کا احساس ہوتا تھا۔ یعنی پاکستان میں انصاف صاحب اقتدار کے گھر کی باندی ہے اور کالا کوٹ پہن کر آپ کو ہر کام کا لائیسنس مل جاتا ہے۔ آپ جو چاہیں کریں کس کی جرآت ہے آپ کو ایک لفظ بھی کہہ سکے۔ آپ نو مئی کا سانحہ برپا کر دیں۔ اپنے لیڈر کے لیے قانون کو چٹکیوں میں مسل دیں۔ کوئی آپ کو کچھ نا کہہ سکے کیوں کہ کالے کوٹ کی طاقت آپ کے پاس ہے۔
آج ایمان مزاری اور ان کے شوہر کی ویڈیو کو دیکھ کر ہم عام عوام سوچ رہے ہیں کیا ہماری کبھی اتنی جرات ہو سکتی ہے کہ ہم ان ناکوں، سڑکوں کی بندش پر اس طرح اظہار ناپسندیدگی کر سکیں۔ ہم بیچارے تو صرف کڑھتے اور انتظار کرتے ہیں۔
یہ حق تو ایمان مزاری اور ان کے شوہر کو حاصل ہے۔ کیوں کہ ہم عام عوام ہیں۔ ہم نے کالے کوٹ نہیں پہنے ہوئے۔ آخر ان کالے کوٹ والوں کو یہ راستہ دکھانے والے کون ہیں۔ سیدھا جواب ہے۔ پاکستان کے سیاستدان۔
ہمارے پیارے ملک پاکستان کے سیاست دانوں نے پرویز مشرف کے خلاف وکلاء کے ذریعے تحریک چلا کر سو فیصد نتائج حاصل کیے۔ مگر وہ معصوم یہ بھول گئے کہ اسی پھندے میں ایک دن یہ خود بھی پھنسیں گے۔
پھر چاہے یہ 26، 27، 28 کوئی بھی کمزور ترمیم لے آئیں۔ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ہمارے پیارے ملک پاکستان کے سیاست دان وہ ہیں، جو اپنی مرضی سے، اپنے مفاد کے لیے کھڑکی کھولتے ہیں۔ پھر جب ہوا کے ساتھ گردو غبار اندر آتا ہے، تو کھڑکی کھلی چھوڑ کر رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ ان سیاست دانوں نے ججز، عدلیہ سب کو متنازعہ بنا دیا ہے۔
جس دن پیارے ملک پاکستان کے سیاست دانوں نے اپنی ذات اور اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا شروع کر دیا۔ یقین مانئیے، اس ملک کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
سیاستدانوں کو اپنی سیاست کے قبلے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ دہائیوں سے استعمال کرنے والے حربے ضروری نہیں اس بار بھی کامیاب ہو جائیں۔