Iss Parcham Ke Saye Talay Hum Aik Hain
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں
پیارے ملک پاکستان کی سیاست اور سیاست دان بعض اوقات سمجھ سے بالا تر ہو جاتے ہیں۔ انھیں پاکستان اور اس کی عوام پر حکمرانی کی خواہش ہوتی ہے، مگر اپنے علاوہ باقی سب سیاسی جماعتوں کے لوگ چور، غدار، بیوقوف، گدھے اور بھیڑ بکریاں لگتے ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں سے کھلاڑی نے جیتنے کی خواہش میں تقسیم کرو اور حکمرانی کرو، کا اصول اپنایا۔ معاشرے میں بے تحاشا تقسیم پیدا کر دی۔ میری سیاسی جماعت، میرا لیڈر، میرا پی ایم، میرا سی ایم، میرا جج، میرا آرمی چیف، میرا صحافی، میرے لوگ، میری خواتین اور میرے کارکنان۔ آپ نے ان الفاظ کی تکرار سنی ہوگی۔ لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ تقسیم پیدا کی جارہی ہے اور باقی سیاسی جماعتوں کے سمجھدار لوگ بھی اس بھیڑ چال کا شکار ہو رہے ہیں۔
ملک کے لیے کوئی بھی منصوبہ جب تکمیل کے بعد عوام کے سامنے رکھا جاتا ہے، تو اس سہولت سے بغیر کسی تفریق کے ساری عوام فائدہ اٹھاتی ہے۔ ایک لیڈر تاج حکمرانی پہننے کے بعد صرف اپنے لوگوں کا نہیں بلکہ ساری عوام کا سوچتا ہے۔ اس کی سب سے عمدہ مثال پنجاب میں شہباز شریف کے ٹرانسپورٹ کے کامیاب منصوبے، اور نواز شریف کی سڑکوں کے پھیلائے ہوئے جال ہیں۔ کسی بھی صوبے کا سی ایم کوئی ہسپتال بناتے وقت یہ نہیں کہتا کہ دوسرے صوبوں کے لوگ یہاں علاج کے لیے نہیں آسکیں گے۔ یہی خوبصورتی ملک کو ایک اکائی کی صورت دیتی ہے۔ سب اپنی سیاست، اپنی جماعت، اپنے کارکنان رکھتے ہیں۔ دوسروں کی جماعت اور کارکنان کی عزت کرتے ہیں۔ سیاسی نظریات کا اختلاف اپنی جگہ، مگر سب محب الوطن پاکستانی ہیں۔
لیکن وطن عزیز کو یہ کس کی نظر لگ گئی۔ اتنی تفریق، اتنی تقسیم کس نے پیدا کر دی؟ اور بجائے کہ تقسیم کے اس عمل کو جھٹلایا جائے، سب اشرافیہ، عام عوام اس کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
ذاتی پسند اور نا پسند ہونا ایک فطری عمل ہے۔ ہمارے ایک گھر یا خاندان میں بھی بعض اوقات کوئی بچہ یا بچی سب کا پسندیدہ بن جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ گھر کے باقی آفراد کو دھتکارنا شروع کر دیا جائے۔ یا ان کی تصحیک کی جائے۔ سب اپنی ذات میں مکمل اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کیوں کہ سب کو بنانے والی ذات رب تعالیٰ نے ایسی کوئی تقسیم پیدا نہیں کی۔ پھر ہمارے۔ لیڈرز یہ کیا کر رہے ہیں؟
گھر کی بنیادیں مضبوط رکھنے کے لیے گھر کے بڑوں کو اپنا ظرف، اپنا دل، اپنی سوچ بھی بڑی کرنی پڑتی ہے۔ چھوٹے تو چھوٹی باتیں ہی کرتے ہیں۔
میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جو انسان سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جاتا جائے، وہ مزید جھکتا جاتا ہے۔ اس کی نظریں اور سر نیچے ہوتا جاتا ہے۔ وہ سوچے سمجھے بغیر بولنے کا حق کھو دیتا ہے۔ بالکل اس پھلدار درخت کی طرح جس کی شاخیں جھکتی جاتی ہیں۔ آندھی آ بھی جائے تو اس کے گرے پھل سے دوسرے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
جب کہ خالی پتوں والا درخت اپنی شاخوں کی بھی حفاظت نہیں کر پاتا۔ اس کی کمزور شاخیں اور پتے ادھر ادھر بکھرتے ہیں اور تیز آندھی میں شور مچاتے ہیں۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے رحمت بن کر ائے۔ فتح مکہ کے موقع پر ان کا عاجزی کے باعث جھکا سر اونٹنی کی کوہان سے ٹکرا جاتا تھا۔ وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم اور فضل سے پوری کائنات کا نظام بدل دیا۔ اس شخص کی عاجزی اور انکساری دیکھیں اور پاکستان کے سیاست دانوں کی حرکتیں دیکھیں۔ جو خود کواس نبی ﷺ کے پیروکار کہتے ہیں اور جن کے تکبر انھیں زمینی خدا بنا دیتے ہیں۔
تکبر اور بادشاہت صرف اللہ ربّ العزت کی ہے۔ ہم انسان تو کچھ بھی نہیں ہیں۔ ایک رگ کے خون کا بہاؤ رک جائے، تو ہم اس زمین پر گر جاتے ہیں۔ جس پر اکڑ کر چلتے ہیں۔ اسی زمین نے اپنے اندر بڑے پر جلال بادشاہوں کو سمو لیا۔ جن کے ایک ابرو کے اشارے پر لوگوں کی جان چلی جاتی تھی۔
پاکستان کو اس وقت اتفاق اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ شور مچانے والے چمچے سب سے پہلے خالی پلیٹوں کو چھوڑ کر بھاگتے ہیں۔ ساری دنیا کی نظریں پاکستان کی سیاست اور حالات پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کبھی اس ارض پاک پر وہ وقت نا لائے کہ ہمارے اپنے لوگوں کی وجہ سے ہم کوئی نقصان برداشت کریں۔ التجا ہے کہ سیاسی ہیٹ میں اتنا اضافہ نا کریں کہ سب کے پر اور پاؤں جلنے لگیں۔
مجھ سمیت ہم سب کو اللہ رب العزت کی اس پکڑ سے خوف کھانا چاہیے جس کہ بارے میں وہ خود فرماتے ہیں کہ بڑی شدید ہے۔