Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Iqtedar Kanton Ki Sej

Iqtedar Kanton Ki Sej

اقتدار کانٹوں کی سیج‎

کہتے ہیں کہ سیاست دان سیاست نا کرے، یہ ممکن نہیں۔ پیارے ملک پاکستان میں ہزاروں افراد اس وادی پر خار کے مسافر ہیں۔ اور اتنی ہی تعداد میں لوگ اپنے پاؤں زخمی کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

پاکستان میں بہت سی سیاسی جماعتیں ہیں اور اقتدار ہر ایک کا خواب ہے۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے نا جانے کیا کیا جتن کیے جاتے ہیں۔ پھر اقتدار کی مسند پر بیٹھنا نصیب ہوتا ہے۔ لیکن راستہ آسان نہیں ہوتا۔ مشکلات کے دریا عبور کرنے پڑتے ہیں۔ یہ کام وہی لوگ کر سکتے ہیں۔ جو دہائیوں سے اقتدار حاصل کرنے کے عمل سے گزرے ہیں۔ ان کا وقت اپنا نہیں ہوتا۔ ان کی خانگی زندگی میں کوئی راز نہیں ہوتا۔ یہ اہنے ہر فعل کے لیے جوابدہ ہوتے ہیں۔ اور زرا سی بھی لغزش ہوئی تو جیل کی سلاخیں مقدر ٹھہرتی ہیں۔ لیکن اقتدار کا مزہ جو ایک بار چکھ لے، پھر وہ اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتا۔ اسی لیے یہ سیاست سے دستبردار نہیں ہوتے۔ آپ دیکھیں۔

ہم لوگ ان پر جی بھر کر تنقید کرتے ہیں۔ مگر یہ سیاست دان عوام، صحافی، ججز کے تمام سوالوں کے جواب خندہ پیشانی سے مسکراتے ہوئے دیتے ہیں اور جہاں ان کے ماتھے پر بل آتے ہیں۔ ہم لوگ ان کا جینا مشکل کر دیتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ سیاست کرنا سیاست دانوں کا ہی کام ہے۔ یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ہم مڈل کلاس پاکستانی، جن کے مرد بھی کورٹ کچہری کے چکروں سے گھبراتے ہیں، حق پر ہونے کے باوجود اپنے حق سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ پاکستان میں انصاف کا عمل طویل اور تکلیف دہ ہے۔ لیکن سیاسی گھرانوں کی خواتین جیل کی تکلیفوں کو خاموشی سے برداشت کرتی ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنے خاندان کے مردوں کو ان حالات سے گزرتے دیکھ چکی ہوتی ہیں۔

سوچیں فریال تالپور جنھیں ہسپتال سے عید سے ایک روز قبل گرفتار کیا گیا۔ مریم نواز شریف جنھوں نے ایک طویل وقت جیل کی سختیاں برداشت کیں۔ لیکن ان سمیت بہت سی خواتین، اپنے خاندان کے مردوں کے ساتھ کھڑی رہیں۔ اس عمل سے ان کی عزت میں اضافہ ہوا۔ اور اقتدار بھی حاصل ہوا۔

سابقہ خاتون اول میڈیا پر بہت کم آئیں، مگر جب بھی آئیں پیچھے داستان چھوڑ گئیں۔ ان کا پہلا اور فی الحال آخری انٹرویو جو صحافی ندیم ملک نے لیا تھا۔ اس میں ان کی ذہنی پرواز کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ ایک مرتبہ کسی ہسپتال کے دورے ہر جیو کے صحافی نے پوچھا کہ کیا عمران خان کی کامیابی کے پیچھے آپ کا ہاتھ ہے؟ تو سابقہ خاتون اول کے غصے سے بھرے، کرارے، جواب کو سن کر بے اختیار ہنسی آ گئی اور صحافی بھی شرمندہ ہو کر ادھر ادھر نکل گیا۔ مگر کیوں کہ وہ بقول عمران خان کے پاکستان کی سب سے نیک اور ایمان والی خاتون تھیں۔ اس لیے کوئی کیا تنقید کرے کہ کہیں کفر کا فتویٰ ہی نا لگ جائے۔

اپنی خواہش پر بنی گالا سے نکل کر اڈیالہ میں مقیم ہونے والی سابقہ خاتون اول کے صبر کے پیمانے چٹخ چکے ہیں۔ ان کی چال یہ چیخ چیخ کر بیان کرتی ہے۔ اپنی حالیہ سماعت پر ان کا رویہ بتا رہا تھا کہ زمان پارک اور بنی گالا میں بیٹھ کر باتیں کرنا آسان اور جیل کاٹنا کافی مشکل کام ہے۔ ٹھنڈے، گرم کمروں میں چلے کاٹنا، عبادات کرنا سہل عمل ہے۔ مگر آزمائش میں بھی حوصلے قائم رکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

ایک بیوروکریٹ کی سابقہ بیگم کو کیا پتا تھا کہ سیاست بہت ظالم کھیل ہے۔ اس میں ناحق جیل ہی نہیں پھانسی بھی مل جاتی ہے۔ اقتدار کے مزے کا انجام، بڑا خوفناک ہے۔ نا عمران خان سیاست دان ہے اور نا ہی بشری بیگم۔ عمران خان اپنی زندگی کا آخری میچ کھیل چکے ہیں۔ ہار ہو چکی ہے مگر ماننے کو تیار نہیں۔ کیونکہ سیاست دان نہیں۔ اسی لیے سب کے ساتھ مل کر چلنے کو تیار نہیں۔ اور بشری بیگم تو سیاست کی الف بے سے بھی واقف نہیں۔

مجھے بشری بیگم اور ان کی بیٹیوں پر ترس آ رہا ہے۔ ان کی بیٹیوں نے قرآن کریم ہاتھ میں پکڑ کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہماری والدہ کوئی پیر نہیں ہیں۔ جب مرشد، مرشد نہیں رہا تو پھر مرید کدھر جائے گا؟

عمران خان سے تو محبت جیسے جذبے کی امید کرنا بیکار ہے۔ مگر بشری بیگم نے تو اپنی محبت میں گھاٹے کا سودا کر لیا۔ بقول ان کے بچوں کے، ہماری والدہ ہر وقت جائے نماز پر بیٹھی رہتی تھیں۔ ایسی خاتون نے اتنا خوفناک رسک کیوں لیا؟

اور اگر اس مقام تک پہنچ گئی ہیں تو اب گریس دکھائیں۔ کیوں کہ پروٹوکول کے ہوٹر کی آواز، ہیلی کاپٹر کے جھولے، بچوں کے سنہرے مستقبل، ایک مشہور نئے شوہر کا خراج تو دینا ہی پڑےگا۔ پھر چاہے ہنس کر دیں یا رو کر۔۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ نا جانے کیوں ایک مشہور کہاوت یاد آرہی ہے۔

جس کا کام اسی کو ساجھے۔۔

Check Also

Muhib e Watan Bangali

By Syed Mehdi Bukhari