Hasad
حسد
بچپن سے یہ حدیث سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں کہ "حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑیوں کو"، اس وقت ذہن بچگانہ تھا۔ کبھی اس بات کی گہرائی کو محسوس نہیں کیا۔ لیکن جوں جوں عمر کی منازل طے کرتی چلی گئی۔۔ اپنے نبی حضرت محمد ﷺ سے محبت کا رشثہ مضبوط ہوتا گیا۔ یہ سوچ کر کہ وہ انسان کی نفسیات کو کس قدر جانتے تھے۔
وہ جانتے تھے کہ انسان حسد کے ہاتھوں کس طرح شیطان کے جال میں پھنسے گا۔ اسی لئے انھوں نے بنی نوع انسان کو خبردار کر دیا۔ کہ حسد سے بچنا۔ کہتے ہیں دنیا کا سب سے پہلا قتل بھی حسد کی بنیاد پر ہوا تھا۔ یعنی قابیل کا ہابیل کو قتل کرنا۔ اندازہ کریں یہ کتنی خوفناک بیماری ہے۔
آج کل اپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں ہر طرف حاسدین کی بھر مار نظر آے گی۔ جاننے والے تو ایک طرف وہ لوگ بھی اپ سے حسد کر کر کے خود کو فنا کر رہے ہوں گے جن سے اپ کا کوئی لینا دینا ہی نہیں۔ سیاست کے میدان کو ہی دیکھ لیں۔ انا اور حسد کی جنگ۔۔ ملک کا کوئی احساس نہیں۔۔ اگر میں نہیں تو وہ بھی کیوں؟ سارا مسئلہ صرف یہ ہی ہے۔
پہلے حسد میں مبتلا اپ کے قریبی لوگ اور رشتے دار ہوتے تھے۔ اب تو معاشرہ اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ ہر کوئی دوسرے کی فکر میں دبلا ہو رہا ہے۔
مال، عزت، خوبصورتی، صحت، صالح اولاد، بہترین رزق، اقتدار یہ سب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتیں ہیں۔ وہ جسے چاہے دے جسےچاہے دے کر واپس لے لے اور جسے نہ دینا چاہے تو کوئی ہے جو میرے رب العالمین سے سوال کی جرات کر سکے۔ کائنات کے خالق ومالک کے فیصلوں پر سر جھکانے کے علاوہ کیا چارہ ہے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا محنت کرو، دعا کرو میں دعائیں سنتا ہوں قبول کرتا ہوں۔۔ لیکن قبول اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہی ہوتی ہیں۔۔ پھر ہم کیوں ہر شے صرف اپنے لئے ہی چاہتے ہیں؟ کیوں دوسروں کی نعمتیں دیکھ کر برکت کی دعا دینے کی بجائے اپنا دل جلاتے ہیں؟
روز محشر اللہ تعالیٰ حاسد سے یہ سوال ضرور کریں گے کہ میرے فلان بندے کو فلاں نعمت میں نے دی تھی تو تم کون ہوتے تھے حسد کرنے والے؟
معاشرہ انسانوں سے بنتا ہے۔ خدارا انسان بنیں۔ دوسروں کو کھلے دل سے قبول کریں۔ ان کی جڑیں نا کاٹیں۔ لیڈر اپنے دل سے جب حسد نکال دے گاتو اس کے فالورز بھی اپنا دل کھلا کر لیں گے۔ ورنہ معاشرہ مزید تقسیم ہوتا جائے گا۔