Election Commission Ka Koi Qasoor Nahi
الیکشن کمیشن کا کوئی قصور نہیں
پاکستان 1947 کو بنا اور آج 2024 چل رہا ہے۔ پاکستان میں اب تک کتنے الیکشن ہوئے، بتانے کی ضرورت نہیں۔ مگر حالیہ الیکشن بڑے دلچسپ ہوئے۔
سیکورٹی صورتحال کے باعث ملک میں انٹرنیٹ سروس بند رہی۔ وقتی تکلیف ضرور ہوئی۔ عوام کو غصہ بھی آیا مگر الحمدللہ کسی بڑے حادثے سے محفوظ رہے۔ جس کے لیے اللہ کے بعد سیکورٹی فورسز کا شکریہ ادا کرنا بنتا ہے۔ لیکن میڈیا کا کردار ان الیکشنز میں انتہائی عجیب رہا، بلکہ کہنا چاہیے کہ میڈیا نے اپنے اوپر لگے تمام الزامات کو بھرپور طریقے سے سچ ثابت کر دیا۔
پچھلی دو دہائیوں سے پاکستان میں نجی چینلز کی بھر مار ہوگئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نجی چینلز شتر بے مہار ہو گئے۔ ریٹنگ اور اشتہارات کے چکر میں ہر کوئی خود کو نا جانے کیا سمجھ بیٹھا۔ کوئی حد کوئی تہزیب باقی نہیں رہی۔ بریکنگ نیوز کی دوڑ میں ہر کوئی دوسرے کو دھکے دے کر آگے بڑھنے لگا۔
انٹرٹینمنٹ کے نام پر ڈراموں کی بھرمار ہوگئی۔ مارننگ شوز زندگی گزارنے کے طریقے بتانے لگے اور سب سے حیران کن بات یہ کہ یہ طریقے بتانے والی ساری خواتین ان مارننگ شوز کے بعد طلاق جیسے ناپسندیدہ عمل سے گزریں۔
اسپیشل ٹرانسمیشن کے نام پر خرافات کا ایک دریا امڈ آیا۔ عدالت کا کوئی اہم فیصلہ ہو، کوئی تہوار ہو الیکشنز ہوں۔ ہر چینل نے اسپیشل ٹرانسمیشن شروع کر دی۔ پہلے صحافیوں کو سلیبریٹیز بنایا گیا۔ پھر انھیں ان پروگرامز میں بیٹھا کر عوام۔ کی ذہن سازی کے عمل کو شروع کر دیا گیا۔
رمضان المبارک میں اسپیشل ٹرانسمیشن کے نام پر جو تماشے لگتے ہیں، وہ تو ناقابل برداشت ہیں۔ اس وقت میڈیا کا یہ حال ہے کہ رمضان المبارک میں شوبز کے لوگ ہمیں دین سمجھا رہے ہوتے ہیں۔ یا وہ علمائے اکرام جو پتا نہیں عبادت کب کرتے ہیں؟ چاند کا اعلان رویت ہلال کمیٹی کی بجائے چینلز کر رہے ہوتے ہیں۔
الیکشن کمیشن ایک قومی ادارہ ہے۔ جس کا کام پانچ سال بعد ملکی الیکشنز کروانا، پھر نتائج مرتب کرنے کے بعد ہار جیت کا اعلان کرنا ہے۔ مگر یہ کام بھی نجی چینلز نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔
اس الیکشن میں نجی چینلز نے بھرپور طریقے سے اپنی اس صلاحیت کا اظہار کیا۔ یہ اظہار اتنا طاقتور تھا کہ نگران حکومت، سیاستدان، الیکشن کمیشن ہکے بکے رہ گئے۔ رہ گئی عوام، اسے خاطر میں ہی کون لاتا ہے؟ الیکشن کمیشن جو چار سال تنخواہیں لینے کے بعد ایک بھی ایسا طریقہ نا بنا سکا۔ کہ نتائج کا اعلان خود کر سکے۔ آپ یقین کریں ہم لاہور کے ایک کونے پر اور ہمارا ووٹ لاہور کے دوسرے کونے پر یعنی عوام ووٹ بھی دو ہزار کا کرایہ لگا کر ڈالنے جائیں، اور اس کے بعد نتائج کا تماشا دیکھیں۔
کوئی ایسا نظام نہیں کہ آپ جس بھی علاقے میں ہوں قریبی پولنگ اسٹیشن میں ووٹ ڈال سکیں اور پیمرا ان چینلز کو شوکاز نوٹس بھیج کر اپنا فرض پورا کر چکا۔ الیکشن کمیشن کم از کم ان چینلز سے عدالت کے زریعے جواب ہی طلب کر لے۔ کہ یہ کس حیثیت سے نتائج کا غیر حتمی اعلان بھی کرتے ہیں؟ کیا اصل صحافت یہ ہوتی ہے؟
کھانا پکانا چینل سکھائے، زندگی گزارنے کے طریقے چینل سکھائے، حکومت چینلز بنائیں، حکومت چینلز گرائیں، دین چینلز سمجھائیں، حکومت بھی چینلز کریں اور اپوزیشن بھی چینل بنائے، عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد چینلز کروائیں، مجرموں کی تلاش، اور برائیوں کی نشاندھی بھی چینلز کریں۔ تو کیوں نا یہ ملک چینلز کے ہی حوالے کردیا جائے۔ بلکہ سرحدوں پر بھی انھیں بیٹھا دیا جائے اور یہ مائیک لے کر دشمنوں سے مزاکرات بھی کریں اور حملوں کی لائیو کوریج دے کر سبسکرائبر اور ویوز بھی بڑھائیں۔
صحافی خود کو زمینی خدا سمجھیں اور جس کی چاہے عزت تار تار کریں۔ سیاستدان عوام سے زیادہ صحافیوں سے ڈریں اور انھیں خوش کرنے کے لیے تحائف پیش کریں۔ جنھیں صحافی شان بے نیازی سے قبولیت کا شرف بخشیں۔
آخر یہ اس ملک میں چل کیا رہا ہے؟ اس ملک کے اصل مسائل مہنگائی، توانائی کا بحران سیکورٹی مسائل ان پر توجہ کب ہوگی؟ عوام کا حال کسی کو نظر نہیں آتا؟
مشہور کہاوت ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ جب کھلاڑی ملک کا وزیراعظم بنے گا، جب انٹرٹینمنٹ کے لوگ دین سمجھائیں گے۔ جب علماء اکرام برائی کے خلاف جہاد کرنے کی بجائے مصلحت آمیز خاموشی اختیار کریں گے، تو پھر وہی کچھ ہوگا جو اس وقت پاکستان میں ہو رہا ہے۔