Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Culture Aur Deeni Ehkamat Ka Farq

Culture Aur Deeni Ehkamat Ka Farq

کلچر اور دینی احکامات کا فرق‎

کلچر یا ثقافت معاشرے میں رائج رسومات، زبان، زندگی گزارنے کے طریقے ہیں۔ دنیا میں موجود ہر معاشرے کا اپنا کلچر، اپنی تہذیب ہے۔ اس میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ کئی لوگ ان تبدیلیوں کو قبول کرتے ہیں اور کچھ اس عمل کو پسند نہیں کرتے۔

دین اسلام دنیا کا واحد سچا دین ہے۔ یہ اللہ رب العزت کا پسندیدہ دین ہے۔ دین اسلام میں زندگی گزارنے کا ہر طریقہ بتایا گیا ہے اور انسان کو رسم و رواج کی زنجیروں سے آزاد کر دیا گیا ہے۔ چھوٹی سے لے کر بڑی تک کوئی ایسی بات یا مسئلہ نہیں جس کا حل ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے نا بتایا ہو۔ دین اسلام میں صرف آسانیاں ہیں۔ کوئی مشکل نہیں۔

مگر ہم پاکستانی مسلمان آسانیوں کو پسند نہیں کرتے۔ ہماری طبعیت کی مہم جوئی ہمیں ہمیشہ ٹیڑھا اور مشکل راستہ اپنانے کی ترغیب دیتی ہے۔ سب باتوں کا احاطہ کرنا مشکل ہے میں صرف اپنے معاشرے کی اس برائی کی جھلک دکھانا چاہتی ہوں۔ جو تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس طرف کسی کا دھیان نہیں۔

آپ اپنے معاشرے میں شادی کی رسومات کو دیکھیں۔ دین اسلام میں نکاح مسجد میں کرنے کی ترغیب دی گئی۔ بارات اور اس کے کھانے کا کوئی تصور نہیں، جہیز انتہائی ضروری اور مختصر دینے کا کہا گیا۔ ولیمے کا کھانا لڑکے کی ذمہ داری قرار دیا گیا اور اس میں غربا و مساکین کا ایک حصہ رکھنے کو کہا گیا۔

نکاح کے خطبے میں دلہا دلہن کو نئی زندگی گزارنے پر دعائیں اور ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا۔ کہا گیا جتنا اصراف کم ہوگا، نکاح میں اتنی ہی برکت ہوگی۔ نکاح کے وقت کی گئی دعا کو مقبول ہونے کا اعزاز دیا گیا۔

لیکن ہمارے معاشرے میں ہو کیا رہا ہے؟ پہلے مہندی کا فنکشن شروع ہوا، پھر مایوں تک بات بڑھی۔ اب قوالی نائٹس اور ڈھولکی شروع ہوگئی۔ ولیمے کے بعد مکلاوا کی رسم چلی۔ اب باقاعدہ ہنی مون کو لازم قرار دے دیا گیا ہے۔

پہلے فوٹو شوٹ اور مووی شروع ہوئی۔ اب اس میں دلچسپی اور جدت پیدا کرنے کے لیے بے تکی حرکتیں شروع ہوگئیں۔ نکاح کے بعد ماتھا چومنے سے بات سرعام گلے لگا کر محبت کا اظہار کرنے تک چلی گئی۔

ہمارے جوڑے نے عیسائیوں کی طرح شادی پر کیک کاٹنا شروع کر دیا۔ لباس مکمل طور پر ہندؤوں والا پہننا شروع کر دیا۔ پھر یہ ہوا کہ دلہا ہاتھ پکڑ کر دلہن کو اسٹیج پر بیٹھانے لگا اور اب مزید کی خواہش نے دلہن کو گانے پر رقص کرتے ہوئے اسٹیج کی طرف آنے پر مجبور کر دیا۔ دلہن رقص کرتے ہوئے اپنے دلہا کی طرف بڑھتی ہے۔ پھر دونوں مل کر اعضا کی شاعری سے سب کو محظوظ کرتے ہیں۔

رخصتی کو بھی ڈرامائی انداز دے دیا گیا ہے۔ دلہن دل میں چاہے شادی ہونے پر شکر ادا کرتی ہو مگر رخصتی کے وقت رو رو کر چیخیں مارتی ہے۔ سب سے گلے مل کر ماتمی ماحول بنا دیتی ہے۔ باپ اور بھائی کھینچ کر گاڑی میں بٹھاتے ہیں اور وہ مڑ مڑ کر دیکھتی اور روتی جاتی ہے۔ کیوں کہ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہونی ہے۔ اس لیے اس کے ویوز کی خاطر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔

آخر اس سب کی ابتداء کس نے کی؟ یہ سب ہماری شوبز کی شادیوں کا نتیجہ ہے۔ پچھلے دو چار سالوں میں شوبز میں کافی شادیاں ہوئیں۔ یہ شادیاں کم اور تماشے زیادہ تھے۔ ان شادیوں کی ہر ویڈیو ٹرینڈنگ میں ٹاپ پر رہی۔ ان اداکاروں نے یو ٹیوب، انسٹاگرام، فیس بک ہر جگہ ویڈیوز اپلوڈ کیں اور اپنی شادی کا سارا خرچہ نکال لیا اور عام عوام نے بیوقوفوں کی طرح اپنی اقدار کو چھوڑ ان رسموں کی پیروی کرنا شروع کر دی۔

میں نے ہمیشہ محسوس کیا ہےکہ پاکستانی معاشرے میں ہر عمل، ہر نئی بات اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ سیاست ہو، فیشن ہو، کوئی ٹرینڈ ہو، سب اس کے پیچھے ناک کی سیدھ میں آنکھیں بند کرکے چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب تک کھائی میں گر نا جائیں پیچھا نہیں چھوڑتے۔ بلکہ کئی تو ایسے جی دار ہیں۔ جو کھائی سے نکل کر پھر چلنا شروع کر دیتے ہیں۔

ہم لوگوں نے ٹیکنالوجی کو صرف انہی کاموں کے لیے سیکھا ہے۔ دنیا کے ممالک ٹیکنالوجی کے زریعے خود کو محفوظ بنانے کی تگ ودو کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی آئی ڈیز بنا کر دوسروں کو دھوکا دینے میں مصروف ہیں اور خواتین مردوں کی آئی ڈیز کو استعمال کرکے فریب کا کاروبار کر رہی ہیں۔ اس دور جدید میں بھی خواتین کو ہراساں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ دولتِ کی نمائش ہے۔ جس نے سب کے دماغوں کو مفلوج کر دیا ہے۔ ظاہر ہے جب انسان کوئی شے حاصل نا کر سکیں، تو یہ ناکامی دل میں حسرت پیدا کرتی ہے۔ یہ حسرت حسد اور فرسٹریشن کا سبب بنتی ہے۔ پھر ان منفی خیالات کا استعمال کوئی بھی کرے اور ملک میں نو مئی جیسا سانحہ ہو جائے۔

میں خوشیاں منانے کے خلاف ہر گز نہیں ہوں۔ مگر ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے۔ اغیار کی نقل میں ہم اپنے فیملی فنکشنز کو کیوں اس طرح عوامی بنا رہے ہیں؟

آپ دنیا کو کیا بتانا چاہتے ہیں کہ آپ اپنی بیٹی، بہن کو دنیا سے انوکھی محبت کرتے ہیں۔ یا آپ جس کو بیاہ کر لے جارہے ہیں۔ وہ دنیا کی انوکھی خاتون ہے۔

یاد رکھیں اسی پاکستان میں دو کروڑ سے زائد لڑکیاں اچھے رشتوں کی تلاش میں اپنے گھروں میں بیٹھی ہیں۔ کچھ تو احساس کریں۔ اگر پیسہ خرچ کرنے کو دل چاہتا ہے تو غریب عوام کی سہولیات پر خرچ کر دیں۔ لوگوں کی زندگی میں آسانی پیدا کر دیں۔ اس عمل پر آپ کو ثواب ہی ملے گا، جبکہ اصراف پر اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہوں گئے۔ کیوں گھاٹے کا سودا کرتے ہیں؟

دین اسلام، دین فطرت ہے۔ اس کے مطابق زندگی میں آسانی پیدا کریں۔ کلچر اور رسومات کا ملغوبہ نا بنائیں۔ یہ ناہو کہ بیس سے پچیس سال بعد آپ کو اپنی اولاد کو دین سمجھانے کے لیے دوسروں کی ضرورت پڑے اور اگر اس سے پہلے آپ مر جائیں، تو اولاد کھڑی ہو کر یہ سوچے کہ دفنانا کیسے ہے اور ویڈیو بنانی ہے یا لائیو دکھانا ہے۔ آپ لوگ وی لاگز بنائیں۔ مختلف جگہوں پر جائیں، سیاحت کریں، سستی اشیاء کی مارکیٹس کا نالج دیں، عوام کو گائیڈ کریں۔ مگر دین اسلام پر ہندوانہ رسومات کے ساتھ ضرب لگانے کے گناہ میں حصہ ہر گز نا ڈالیں۔ میں تو صرف درخواست ہی کر سکتی ہوں۔

Check Also

Danish Ki Jeet, Bewaqoofi Ki Haar

By Asif Masood