Bechare Paristar
بے چارے پرستار
جب سے دنیا وجود میں آئی ہے۔ افراد نے گروہ اور پھر قبیلے بنا کر رہنا شروع کیا۔ تہذیب ہر دور میں جدت کی منزلیں پھلانگتی رہی اور مختلف معاشرے وجود میں آتے رہے۔ قومیں نمو پاتی رہیں۔ ہر معاشرہ، تہذیب ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مگر انسانی فطرت کے کچھ رویے ہر معاشرے میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ سب کا ذکر طوالت کے باعث کرنا مشکل ہے۔
ایک انسانی رویے کا ذکر کرنا چاہتی ہوں۔ یہ رویہ ایک دوسرے کو سراہنے کا رویہ ہے۔ بعض اوقات اس رویے میں صرف ایک فریق سراہنے والا ہوتا ہے اور دوسرا اس توصیف کو اپنا حق سمجھ کر وصول کرتا ہے۔ خونی رشتوں میں محبت ایک فطری عمل ہے۔ لیکن انجان لوگوں سے محبت ان کی کسی خاص صلاحیت یا کسی رویے کی بنا پر ہوتی ہے۔ یہ محبت بہت قیمتی ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ بے غرض اور پر خلوص ہوتی ہے۔
ہم جب اسکول میں قدم رکھتے ہیں۔ تب سے ہی انسانی فطرت کا یہ جزوی رویہ ہمارے اندر پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے کسی استاد سے محبت ہو جاتی ہے۔ یہ محبت اگر مثبت ہو تو ہماری زندگی کا مقصد متعین کر دیتی ہے۔ ہماری ان صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہے۔ جس سے شاید ہم خود بھی واقف نہیں ہوتے۔
استاد کی محبت کے بعد ہمیں کسی ادیب، شاعر، شوبز سٹار، گلوکار سے اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔ یہ وہ محبتیں ہیں۔ جو وقت کے ساتھ مدھم ضرور ہوتی ہیں، مگر دل کے کسی کونے میں موجود رہتی ہیں۔
ہم ان ستاروں کے فینز بن جاتے ہیں۔ ان کی باتیں ہمارے دلوں پر اثر کرتی ہیں۔ ہم توجہ سے انھیں سنتے اور دیکھتے ہیں۔ یقین مانے بغیر کسی خونی رشتے کی محبت پانے والے لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں۔ انھیں اپنی خوش قسمتی پر ناز کرنا چاہیے اور فینز کی اس محبت پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
مگر کیا کریں، شہرت کی بلندی پر جاتے ہی سب سے برے پرستار ہی لگتے ہیں۔
شہرت، اعلی عہدہ، ضرورت سے زائد دولت ایک ایسا ناسور بن جاتا ہے جس سے انسان کا بچنا ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہے۔
میری بے حد قابل احترام استاد مسز تسنیم مشتاق جو بی اے میں میری اردو ادب کی استاد تھیں۔ میرے لکھنے کے شوق کو سراہتی تھیں۔ بے حد محبت سے حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ میں نے ایک مرتبہ ان سے کہا کہ کیا آپ مشاعروں یا ادبی محافل میں جاتی ہیں؟ مجھے بے حد شوق ہے، اپنے پسندیدہ مصنف یا شاعر سے ملنے کا۔ پیاری استاد نے جو جواب دیا، وہ گرہ میں باندھ لیا۔ انھوں نے فرمایا سائرہ آپ جس کی تحریر پسند کرتی ہیں، یا جس کی شاعری پڑھتی ہیں۔ انھیں جی بھر کر سراہیں۔ ان کی ہر کتاب خریدیں مگر کبھی ملنے کی کوشش نا کریں۔ اگر اتفاقاً ملاقات ہو جائے تو اسے سرسری انداز میں لیں۔ آپ نے جو محبت، عقیدت کا بت تراشا ہے۔ اسے ٹوٹنے سے بچائیں۔ کیوں اس کے ساتھ آپ کا دل بھی ٹوٹ جائے گا۔
آپ یقین مانیئے اورئینٹل کالج میں دوران تعلیم اس بات کی حقیقت کا ادراک بار ہا ہوا۔ سب نہیں مگر بہت سے لوگ اپنی شہرت، عزت کو اپنے ہی ہاتھوں پامال کر تے محسوس ہوئے۔
اب اس دور جدید میں تو کوئی تحریر کا سچا پرستار ملتا نہیں اور آگر کوئی سچ مچ کا پرستار مل بھی جائے تو اسٹارز گھبرا جاتے ہیں اور گھبراتے کیوں ہیں؟ مجھ سمیت آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔
پرستاروں پر الزامات بھی لگ جاتے ہیں۔ انھیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تو پھر اپنی بے لوث محبت کو بے مایہ نا کریں۔
کوئی سیاست دان، مصنف، شاعر، آرٹسٹ غرض جس کے بھی پرستار ہیں۔ ان سے ملنے کی کوشش کرکے ان کو پریشان نا کریں اور اپنا دل ٹوٹنے سے بچائیں۔ یہی عقلمندی کا تقاضا ہے۔ انسان سے اندھی محبت کے پیروکاروں کے نصیب میں عزت کم ہی ہوتی ہے۔