Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saira Kanwal/
  4. Bache Hamare Ehad Ke

Bache Hamare Ehad Ke

بچے ہمارے عہد کے

ماہرین کہتے ہیں ایک سے سات سال کی عمر تک کے بچے کی عمر سیکھنے کے لحاظ سے اہم اور بہترین ہوتی ہے۔ اس عمر میں بچہ، بچہ نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا سسٹم ہوتا ہے جو بڑی خاموشی سے ہر معلومات۔ ہر روپے، ہر تجربے کو اپنے اندر فیڈ کر رہا ہوتا ہے۔ اور یہ سب کچھ مل کر اس کی اگلی زندگی کی کہانی لکھتے ہیں۔ لیکن کتنے لوگ اس بات پر توجہ دیتے ہیں؟

نفسیات میں بچے کی ناف کا کٹنا اس کے پہلے صدمے میں شمار کیا جاتا ہے۔ باہر کے ممالک میں اس قدرتی عمل کے بعد فوراً بچے کو ماں کےقریب کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ خود کو محفوظ تصور کرے۔ اور یہ عمل اس کی آئندہ زندگی میں اسے مضبوط شخصیت کے طور پر سامنے لاے۔ اس ملک میں بچے کیسے پلتے ہیں؟ سب جانتے ہیں۔

پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ جہاں شادیاں اس لئے ہوتی ہیں کہ سب کی ہوتی ہیں۔ اور اولاد اس لیے پیدا ہوتی ہےکیونکہ شادی کے بعد یہ بھی ضروری ہے۔ کتنے ماں باپ ہیں؟ جو بچے بچیوں کو یہ ٹریننگ دے کر ان کا نکاح کرتے ہیں کہ اب تم لوگوں نے شوہر یا بیوی کے رشتے کی زمہ داری اٹھانی ہے۔ اولاد ہونے پر اس کوصرف پالنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو یہ ںتاتے ہیں کہ تربیت کیسے کرنی ہے؟

ایک استاد کی حیثیت سے مجھے مختلف اسکولوں، اکیڈمی اور ایک گورنمنٹ کالج میں گیارھویں بارہویں جماعت کی بچیوں کو پڑھانے کا اتفاق ہوا ہے۔ کالج میں تو کم مگر اسکول اور اکیڈمی میں مجھے آج تک وہ والدین نہیں ملے جو اپنے بچے کی بری عادت کے بارے میں سوال کرتے ہوں۔ ایک مرتبہ انتہائی بھولی صورت والی بچی کے ماں باپ سے میں نے پیرینٹس میٹنگ پر بڑے محتاط الفاظ میں کہا کہ اپ کی بچی دوسروں کے بیگز میں سے ہر روز چیزیں نکال لیتی ہے۔ اس کے بعد میری پیشی سیدھی پرنسپل آفس میں ہوتی۔ جہاں مجھے سمجھا یا گیا کہ ایسے کسی ایشو کو والدین کے سامنے نہیں لانا کیونکہ وہ کبھی نہیں مانیں گے۔ الٹا بچے کا اسکول تبدیل ہو جائے گا۔

میری یونیورسٹی میں پہلی کلاس آٹھ بجے ہوتی تھی۔ اورینٹل کالج کے قریبی پان سگریٹ کے کھوکھے سے گزرتے ہوئے قریبی کالج کے انتہائی معصوم چہروں والے فرسٹ ائیر سٹوڈینٹ نظر اتے جو دھڑا دھڑ سگریٹ کے کش اس طرح لگا رہے ہوتے تھے کہ بیان سے باہر ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر دور میں مسائل رہے ہیں۔ تھوڑی بہت نوعیت بدل جاتی ہے۔ مگر جو واقعہ آج سوشل میڈیا پر چل رہا ہے۔ یہ واقعات ہر دور میں ہوتے ہیں۔ اب سوشل میڈیا کی بدولت جلد منظر عام پر اجاتے ہیں۔ دوسرے بچے ہوری پلاننگ اور ذہانت سے کام لیتے ہیں۔ پچاس ہزار کی ضمانت ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں۔

نوجوانوں کے لیڈر کہتے ہیں ہاں میں پلے بوائے تھا۔۔ نشہ کرتا ہوں کرپشن تو نہیں کرتا۔ زنا کا ٹمر میرا زاتی معاملہ ہے۔ میرے جلسے میں آئیں فل انجوائے منٹ ملے گی۔ استاد کی عزت پامال کرو۔ اپنے محافظوں کو گالیاں نکالو۔ یہی حقیقی آزادی ہے۔

بزرگ سیاستدانوں کا وہ حال کر دو کہ وہ منہ سر لپیٹ کر گھر بیٹھ جایئں۔

پھر تم حقیقت میں آزاد ہو جاؤ گے۔

تو پھر دودہائیوں سے زیادہ کی جد وجہد نے رنگ لانا ہی تھا۔

اور وہ رنگ لا چکی ہے۔ رحمان ملک مرحوم جو پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ تھے۔ جہاز میں دیر سے آنے پر ان کا ایک یادگار استقبال ہوا تھا۔ جاوید چوہدری صاحب نے اپنے ایک کالم میں فرمایا تھا۔ سیاستدان تیار رہیں آئندہ چند سالوں کے بعد کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔

نا تب کسی نے ان باتوں کو سنجیدہ لیا نا ہی اب لیا جا رہا ہے۔ فتنہ رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگا ہے۔ مگر کسی کو پرواہ نہیں۔ کرسیوں کی تقسیم اہم ہے۔ پھر چاہے وہ اخلاقیات کے جنازے پر ہی کیوں نا پڑیں ہوں۔

پتا نہیں کس اللہ کے بندے نے کہا تھا مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔ ماں باپ سوچ لیں۔ نور مقدم یا سارہ کی طرح موت دلوانی ہے۔ یا دعا زہرا کی طرح اپنی عزت کا تماشہ بنوانا ہے۔ فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔

Check Also

Ustad Ba Muqabla Dengue

By Rehmat Aziz Khan