Baara Ne Sab Ke Baara Baja Diye
"بارہ" نے سب کے بارہ بجا دئیے
پیارے ملک پاکستان کے بارہویں الیکشنز بخیر و خوبی انجام پا چکے۔ نتائج کے بعد حکومت سازی کا عمل شروع ہوگیا۔ یا یوں کہئیے جوڑ توڑ کی سیاست اپنے عروج پر ہے۔ پرویز مشرف مرحوم کے دور حکومت میں ہونے والے الیکشنز وہ پہلے الیکشنز تھے جنھیں میں نے ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے پوری توجہ سے دیکھا۔ بڑی دلچسپی سے حکومت سازی کے عمل کامشاہدہ کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کیسے بنی اور زرداری صاحب کی مفاہمتی سیاست کو پوری توجہ سے سمجھا۔
اس سے پہلے ووٹ صرف پسندیدہ شخصیت کو ڈالتی تھی۔ ان الیکشنز کے بعد سوچا کہ ووٹ کام کرنے والوں کو ڈالنا چاہیے۔ انہی الیکشنز میں پتا چلا کہ جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے اور یہ بھی کہ جمہوریت کا اصل حسن کیا ہے؟ اسی دور میں پتا چلا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کیسے ہوتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کا یہ دور عوام کے لیے ایک بھیانک خواب ثابت ہوا۔ وہ خواب جو جاگتی آنکھوں سے دیکھا گیا۔ اتنی بیڈ گورننس کہ جمہوریت واقعی انتقام محسوس ہوئی۔ لوڈ شیڈنگ کے عذاب اور سیاسی پریس کانفرنسز نے عوام کو ذہنی ٹارچر کیا۔ میڈیا نے اپنا مال جی بھر کر بیچا۔ کبھی کوئی سیاسی رہنما دوسرے سے ملنے جا رہا ہے۔ کبھی پریس کانفرنس کر رہا ہے۔ سیاسی پروگرامز کی ریٹنگ اس دور میں عروج پر تھی۔ عوام تفریحی ڈرامے کم ان پروگرامز کو زیادہ دیکھتے تھے۔ ان سیاسی پروگرامز نے آٹھ بجے کا ڈرامہ ٹائم عوام سے چھین لیا۔
کھینچ کھانچ کر جمہوری حکومت پانچ سال نکال ہی گئی اور پہلے تہاڈی واری تے فیر ساڈی۔۔ کہنے والے میدان میں اتر آئے۔
اگلی حکومت ن لیگ کی بنی۔ پھر پرانی قسط دھرائی گئی۔ اس پارٹی سے ملو، فلاں کے گھر جاؤ، وہی پرانا جوڑ توڑ شروع ہوگیا۔ مفادات کا جوڑ توڑ جس میں ہر کوئی اچھے حصے کا خواہاں تھا۔
ملک ترقی کی ڈگر پر رواں ہوگیا۔ پچھلی حکومت کی دی گئی اذیتیں کم ہونا شروع ہوگئیں۔ میڈیا اداس رہنے لگا۔ اچانک ہی عمران خان کو تبدیلی کا بخار چڑھ گیا۔ یہ بخار ڈی چوک کے دھرنے تک ٹائیفائیڈ میں تبدیل ہوگیا۔ میڈیا کا یہ حال کہ ساری انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔
دنیا کے کسی مہذب ملک میں احتجاجی دھرنے کو ایسی شاندار کوریج نہیں ملی ہوگی۔ جو ڈی چوک کے کنٹینرز والے دھرنے کو ملی۔ طاہر القادری سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا نعرہ لگاتے ہوئے کینیڈا سے وارد ہو گئے۔ یہ وہ دور تھا جس میں بڑے غیر محسوس اور آرگنائزڈ طریقے سے عوام کے اندر تقسیم کا عمل شروع ہوگیا۔ گھر کے ڈرائنگ رومز ہوں یا گلی محلے کے تھڑے، صرف سیاست اور دھرنے کی باتیں ہوتی تھیں۔
آخر یہ سب رنگ لایا، نواز شریف نا اہل ہوا اور پھر اگلا الیکشن جیسے ہوا۔ جیتنے والے بھی پریشان ہو گئے۔ ان دنوں کا ایک بہت مشہور صحافی ایک ٹی، وی چینل پر بیٹھ کر فرما رہے تھے کہ فلاں بندہ بنی گالا گیا تو عمران خان نے ہنس کر کہا اوئے تم بھی جیت گئے۔
اندازہ کریں کس قدر دیدہ دلیری سے جیت حاصل کی گئی۔ پھر عوام نے دیکھا کہ ملک تباہی کے دہانے پر کیسے پہنچتے ہیں۔ روز مرہ استعمال کی اشیاء عوام کی دسترس سے دور ہوگئیں۔ عوام معاشی اور اخلاقی طور پر منہ کے بل گرے اور آج تک سنبھل نا پائے۔
عوام کو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ باشعور شہری نہیں بلکہ کسی مزار کے زائرین ہیں۔ جن کا کام چڑھاوے چڑھانا ہے۔ ترقی اور عوام کی ریلیف نہیں، صرف مخالفین کی ٹرولنگ اور انھیں جیلوں میں بند کرنے کام اس دور میں ہوا۔
عمران خان کے ملک کے ساتھ یہ تماشے دیکھ کر آخر نام نہاد اپوزیشن کو بھی ہوش آ ہی گئی۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت گئی۔ نگران سیٹ آپ آیا اور اب 8 فروری کو ملک کے بارہویں الیکشنز ہوئے۔ ان الیکشنز کے حوالے عوام کے اندر جوش اور خوشی تھی۔ نواز شریف اور شہباز شریف سب ٹھیک کر دیں گے یہ یقین تھا۔
مگر 9 فروری کی رات میڈیا نے عوام کی اس خوشی کو ملیامیٹ کرنا شروع کر دیا۔ ہر چینل نے اسپیشل ٹرانسمیشن کے نام پر روزگار بڑھانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا۔ ان صحافی حضرات نے نا جانے کس ایجنڈے کے تحت عوام کو کنفیوز کرنا شروع کر دیا۔
میں حیران ہوں کہ ان صحافی حضرات کے اندر خدا کا خوف یا ملک سے محبت کا جذبہ کہاں گیا؟ جس ملک نے انھیں نام دیا، پیسہ دیا۔ اسی ملک کے الیکشنز کو متنازعہ بنانے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے اور سیاست دان کا تو پتا نہیں دماغ کہاں ہے؟ سیاست میں دہائیاں گزار دیں مگر معلوم نہی کہ جدید دور کے طریقے کے مطابق حالات کو ہینڈل کیسے کرنا ہے۔
وہی پرانے جوڑ توڑ، وہی مفاہمتی سیاست، جس سے عوام اکتا چکی ہے۔ مجھے یہ وزارت چاہیے، مجھے یہ عہدہ چاہیے۔ کس دن ان سیاستدانوں کو عقل آئے گی کہ یہ کام کیے بغیر اگر آپ لوگوں کا گزارا نہیں تو خاموشی سے ہی کر لیں۔
پیپلز پارٹی نے کچھ عقل سے کام لیا۔ بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس کافی میچور تھی۔ مگر باقی سیاسی جماعتوں کے وہی نئی پیکنگ کے پرانے تماشے۔
یعنی اس وقت یہ صورت حال ہے کہ کوئی سادہ اکثریت نا ملنے پر روٹھ کر بیٹھا ہے۔ کوئی من پسند جیت نا ملنے پر اپوزیشن میں بیٹھنے اور سڑکوں پر فیصلے کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ کوئی نو مئی جیسے قومی سانحے کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ دس بھی ہوگا اور گیارہ بارہ بھی۔
کوئی ہوا میں موجود اکثریت کا دعویدار بنتے ہوئے ملک پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ دھڑا دھڑ عدالتی فیصلے سنانے والی عدالتیں یوں خاموش ہیں۔ جیسے فیصلے آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ حالات کودیکھ کر کئیے جاتے تھے۔
کچھ لوگ عقلمندی سے استعفے دیتے ہوئے سیاست سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔ کئی لوگ بہادری سے ہار قبول کر رہے ہیں۔ ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے مجھے لگتا ہے۔ ملک کے بارہویں الیکشنز فلٹر ثابت ہوئے اور انھوں نے بہت سے لوگوں کے بارہ بجا دئے۔
صدق دل سے دعا ہے جس کی بھی حکومت بنے۔ اس مرتبہ ایجنڈا عوام کی فلاح کا ہو۔ ورنہ سیاست دان یہ یاد رکھیں۔ ملک تو نگران سیٹ آپ کی موجودگی میں بھی چل رہا تھا اور بہترین ہی چل رہا تھا۔