Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Awam Kab Soche Gi?

Awam Kab Soche Gi?

عوام کب سوچے گی؟

اورئینٹل کالج میں دوران تعلیم مجھے لاہور کی معروف لائبریریوں کی ممبرشپ کا شوق پیدا ہوا۔ سوچا خریدے بغیر کتابیں پڑھنے کو ملیں گی۔ میں نے پنجاب لائیبریری اور قائد اعظم لائیبریری دونوں کے کارڈز بنوائے اور سہیلی کے ساتھ قائد اعظم لائیبریری پہنچ گئی۔ بہت خوبصورت ماحول اور ایک زبردست لائبریری۔ لیکن افسوس ایک مرتبہ کے بعد دوبارہ نا جا سکی۔ کیوں کہ فاصلہ زیادہ اور وقت کم ہوتا تھا۔ سوچا کہ پنجاب لائبریری ہی ٹھیک رہے گی، کیوں کہ وہ اورئینٹل کالج سے قریب تھی۔ ہم تین سہیلیوں نے پروگرام بنایا۔ کارڈ صرف میرا تھا، ایک ساتھ دینے اور دوسری تصویریں کھنچوانے ساتھ آئی۔

لاہور کے باسی جانتے ہیں کہ پنجاب لائیبریری کی عمارت کافی خوبصورت ہے۔ سہیلیوں نے مجھے کہا کہ کتاب نا پڑھنے بیٹھ جانا، آج صرف دیکھ لو۔ سو ہم نے لائبریری کو صرف گھوم پھر کر دیکھا۔ جب باہر یادگار کے طور پر تصویر بنوانے نکلے، تو سامنے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب نظر آئے۔ چھوٹے قد کے ساتھ اپنی مخصوص ٹوپی پہنے، انھوں نے ہماری طرف سرسری نظر سے دیکھا، وہ غالباً کسی کا انتظار کر رہے تھے۔

میں نے اپنی سہیلیوں سے کہا وہ دیکھو سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ چلو ملتے ہیں۔ آٹوگراف ہی لے لیتے ہیں۔

سہیلی نے کہا کون نسیم حسن شاہ؟ میں نے کہا سابق چیف جسٹس ہیں۔ انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کا فیصلہ سنایا تھا۔ مجھے کسی اخبار کی پڑھی ہوئی خبر ٹوٹی پھوٹی یاد آئی۔ سہیلی بولی تو پھر؟ چھوڑو پرے۔

میں نے کہا تصویر کھنچوا لیتے ہیں۔ وہ بولی چھوڑو، وہ سامنے سیڑھیوں پر بیٹھو، اچھی لوکیشن ہے۔ تصویر خوبصورت آئے گی۔ دوسری سہیلی نے بھی دلچسپی نا دکھائی۔ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ خاموشی سے اکیلے کھڑے تھے۔ پھر گھڑی دیکھ کر باہر نکل گئے۔ وہ غالباً گاڑی کا انتظار کر رہے تھے۔

آج برسوں بعد یہ واقعہ پوری شدت سے یاد آیا۔

آپ سوچیں سامنے ایک لیڈر کی پھانسی کا حکم دینے والا سابق چیف جسٹس کھڑا ہے اور پوری لائیبریری اور یونیورسٹی طالب علموں کو کوئی دلچسپی نہیں۔ نا کوئی ان کی تذلیل کر رہا ہے، نا کوئی سوال پوچھ رہا ہے اور نا ہی انھیں اکیلے کھڑے ہونے سے کوئی خوف محسوس ہو رہا ہے۔ اورئینٹل کالج واپس آکر میں نے کلاس فیلوز لڑکوں کو بتایا، انھوں نے بھی سرسری اس بات کو سنا ایک معصوم نے تو پوچھا کون نسیم حسن شاہ؟

آج کل کیا ہو رہا ہے؟ اس پر غور کی ضرورت ہے۔ جب سے پاکستان میں وکلاء تحریک چلی، چیف جسٹس افتخار چودھری کو بحال کروایا گیا۔ پاکستان وکیل اور ججز خود کو زمینی خدا سمجھنے لگے۔ میڈیا نے ان لوگوں کو اس قدر کوریج دی کہ یہ لوگ قوم کے ہیرو بن گئے۔ سیاسی جماعتوں نے جنرل مشرف کے خلاف ان لوگوں کو زبردست طریقے سے استعمال کیا اور سو فیصد نتائج حاصل کیے۔ مگر اپنا مستقبل سوچ نا سکیں۔ کیوں کہ انا کی جیت نے دماغ پر پردہ ڈال دیا۔

ان ججز اور وکلاء کو عوام کے ہیروز بنا دیا اور عوام بھی ہمیشہ کی طرح بھیڑ بکریاں بن گئی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جب مقصد حاصل کرنا ہو تو عوام کی طاقت کہا جاتا ہے۔ وگرنہ یہی طاقت بھیڑ بکریاں بن جاتی ہے۔ کیوں تب اس طاقت کو آپ کا مخالف استعمال کر رہا ہوتا ہے۔

میں نے اسی افتخار چودھری کو متنازعہ بنتے دیکھا۔ پھر ثاقب نثارِ کا عروج دیکھا۔ پھر اسی ثاقب نثارِ کی اکیلے ائیرپورٹ پر کھڑے تصویر دیکھی اور آج تک بدترین تذلیل دیکھ رہی ہوں۔

وکلاء تحریک کے ہیرو اطہر من اللہ کو زیرو بنتے دیکھا۔ عطا بندیال کو رسوائی کے گڑھے میں گرتے دیکھا۔

باقیوں کو تو عہدے سے اترنے کے بعد رسوائی ملی۔ حالیہ چیف جسٹس کی فیملی کے ساتھ بد تہذیبی کی ویڈیوز نے بتا دیا کہ اس ملک میں کسی کی عزت اور قانون کا خوف نہیں رہا۔

پاکستان کے طول و عرض میں اتنا شعور پھیل گیا ہے کہ اس سیلاب کو روکنا مشکل ہوگیا ہے۔ پیارے ملک پاکستان میں کوئی کام ایسا نہیں جو متنازعہ نا بنے۔

اندازہ کریں سیاستدانوں نے ایک آئینی ترمیم کی منظور ی کا کیسا تماشا بنا دیا تھا کہ فیک ریپ کیس کی آڑ میں سارے ملک میں ایسے احتجاج کیا جارہا تھا۔ جیسے اس سے اہم مسئلہ ہے ہی نہیں۔

نا جانے یہ ترمیم کس کا مشورہ تھی۔ یہ بات تو طے ہے کہ سیاست دان اس کی منظوری نہیں چاہتے تھے ورنہ یہ ایک دن میں منظور ہو چکی ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے مفادات کے لیے سب سیاست دان ایک پیج پر ہیں۔ گرم زمین کسی کو پسند نہیں اور ناہی دونوں طرف سے ایک دوسرے پر اعتبار ہے۔

سب مسکرا رہے تھے۔ عشائیے اور ظہرانے انجوائے کر رہے تھے۔ پریس ٹاک کر رہے تھے۔ طالب علم نا جانے کس لیے سڑکوں پر مارے مارے پھر رہے تھے۔ کسی کو پرواہ نہیں۔ کیا کسی ایک سیاسی رہنما نے طالب علموں کو سمجھانے کے لیے کوئی ویڈیو پیغام جاری کیا تھا؟ ہر گز نہیں۔

یعنی اس ملک میں آپ دیدہ دلیری سے عہدوں سے لطف اٹھائیں گئے۔ مگر پریشانیوں اور مسائل سے ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہو جائیں گے۔

ہمارے سیاستدان اپنے اپنے چیف جسٹس کا راگ الاپتے وقت شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔

ایک منصف کا سیاست سے کیا کام؟ ہمارے جج تمہارے جج، یہ تفریق کس نے پیدا کر دی؟

اس تفریق کو سنبھالنے کا بھی تماشا لگایا گیا۔

اب حال یہ ہے کہ تقریباً تمام سیاستدان ملک سے باہر ہیں۔ کچھ علاج کروانے گئے ہیں۔ کوئی عمرہ کر رہا ہے۔ کوئی تھکاوٹ دور کرنے لندن پہنچ گیا ہے اور وہ پاک فوج جس پر تنقید کرنا سب اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جانوں کی قربانی دے رہی ہے۔ عوام قدرت کی سزا سموگ کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ مگر کسی کو پرواہ نہیں۔ لاہور کے اصل وارث مسکراتے چہرے نا جانے کہاں ہیں؟ یا شاید سموگ نے عام عوام کی نظر دھندلا دی ہے۔

عام عوام کے ذہن اور سوچ پر تو سیاسی جماعتوں کے لیڈرز پہلے ہی قابض ہیں۔ میری التجا ہے کہ خدارا عام عوام اپنی آنکھیں اور ذہن کھولیں کسی کے آلہ کار مت بنیں۔ ایک یا دو دہائیوں کے بعد کوئی آپ کی اس لا حاصل جدو جہد کے بارے میں یاد رکھنا تو دور کی بات پو چھنا بھی گوارا نہیں کرے گا، جس جدو جہد کی خاطر آپ اپنا خاندان اور مستقبل داؤ پر لگا رہے ہیں۔

Check Also

Dunya Ke Mukhtalif Mumalik Ki Shahkaar Kahawaten

By Noor Hussain Afzal