Aurat He Mazloom Aur Aurat He Zalim
عورت ہی مظلوم اور عورت ہی ظالم
زارا کے ساتھ جو ہوا، اتنا دلخراش اور تکلیف دہ ہے کہ لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں، پڑھتے ہوئے آنکھیں آنسوؤں سے دھندلی ہو جاتی ہیں۔ ٹانگیں بے جان ہو کر وجود کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیتی ہیں۔ سیالکوٹ اور اس ملحقہ علاقوں سے ہمیشہ درندگی کی خبریں کیوں ملتی ہیں؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔
کسی بھی سانحے کی سچائی یا جھوٹ کو جانچنے کے لیے دونوں طرف سے موقف سنا جاتا ہے۔ اس کے بعد قصور وار کا تعین کیا جاتا ہے۔ لیکن زارا کے قتل کا واقعہ اتنا سنگین ہے کہ دوسری طرف کے موقف کو جاننے اور جانچنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔ صرف ایک خیال اور ایک سوچ ذہن میں آتی ہے کہ غلطی جتنی بھی سنگین تھی، سزا انسانیت کے درجے سے گر کر دی گئی۔
ہم لوگ ہر سانحہِ کو ایک خبر کے طور پر لینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ عوام اور اشرافیہ کسی بھی سانحے کے محرکات پر غور کرکے اس کے سدباب کی کوشش نہیں کرتے۔ میں عام عوام کے طور پر جب اس سانحے کے متعلق سوچتی ہوں تو بہت سی باتوں کی طرف دھیان جاتا ہے۔ جنھیں ہمارے معاشرے میں انتہائی سرسری انداز میں دیکھا جاتا ہے۔
دین اسلام میں طلاق یافتہ اور بیوہ عورت کا نکاح کنواری لڑکی سے پہلے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر پاکستانی معاشرے میں بچوں والی بیوہ یا طلاق یافتہ خاتون اگر نکاح ثانی کر لے، تو معاشرہ اسے جینے نہیں دیتا۔ خاص طور پر متوسط طبقے میں یہ رجحان مضبوط جڑ پکڑ چکا ہے۔ شوہر کے بغیر عورت صرف ماں ہے۔ اسے اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے کا کوئی حق نہیں۔ نتیجتاََ وہ عورت اپنے بیٹے سے ساری امیدیں وابستہ کر لیتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں متوسط طبقے کی خواتین معاشی طور پر خود مختار نہیں ہوتیں۔ گھر، سسرال بچوں کی ذمہ داری نبھاتے نبھاتے وہ اپنی صلاحیتوں کو بھی کہیں کھو دیتی ہیں۔ یہ خواتین معاشی طور پر پہلے باپ بھائیوں پر، پھر شوہر اور بیٹے پر انحصار کرتی ہیں۔ اسی کشمکش میں ان کی ساری زندگی گزر جاتی ہے اور سب سے اندوہناک وہ زندگی ہے جس میں بیٹے کی کمائی پر انحصار کیا جاتا ہے۔
لڑکا بہنوں کی شادی کرتے کرتے تھک جاتا ہے۔ ماں ہمیشہ بہو کو ایک رقیب سمجھتی ہے، بہنیں بھابھی کو اپنا دشمن اور بھائی کی کمائی کا حصہ دار سمجھتی ہیں۔ شوہر کے بغیر زندگی گزارنے والی عورت متوسط طبقے میں اپنی بہو کو بیٹے کے ساتھ آباد کم ہی دیکھ پاتی ہے۔ کیوں کہ ہمارے خاندانی نظام میں نسل در نسل ہر روایت کا چلنا ایک فرض ہے۔ جو ہر شادی شدہ لڑکی کو ادا کرنا ہڑتا ہے۔ مطلب اگر ساس نے شوہر کے بغیر زندگی کے دن رات گزارے ہیں، تو بہو کو بھی اس روایت کا پاس رکھنا پڑے گا۔
میں نے اپنے اردگرد ایسی خوفناک خواتین دیکھی ہیں۔ جو پانچ وقت رب تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے ہر عمل کرنے پر تیار رہتی ہیں۔ ان کے چہروں پر نور جھلکتا ہے۔ سر پر سے دوپٹہ نہیں کھسکتا۔ مگر ان کی آنکھوں میں اپنی بہوؤں کے لیے اتنی نفرت ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ۔
نفرت ایک دن میں نہیں پیدا ہوتی۔ اس جذبے کو سالہا سال دبایا جاتا ہے۔ یہ ایک آتش فشاں کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور جب یہ آتش فشاں پھٹتا ہے تو پھر آپ سامنے والے کے ٹکڑے کر دیتے ہیں۔ اس کے خوبصورت چہرے کو جلا کر خاک کر دیتے ہیں۔ اگر محبت کا جذبہ پہاڑ کو کاٹ کر دودھ کی نہر بہا سکتا ہے، تو نفرت کا جذبہ بھی دوسرے کو جلا کر راکھ کر سکتا ہے۔
دوسرے پہلو کو دیکھیں، متوسط طبقے میں خاندان کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے بیٹے ہردیس میں بھیجنے کا رواج بھی ضرورت سے زیادہ ہے۔ والدین اپنی نا آسودہ خواہشات کو بیٹے کی کمائی کے زریعے پورا کرنے کی خواہش میں، اس بیچارے کو ایک مشین سمجھ لیتے ہیں۔ ایسی مشین جس کا کام صرف نوٹ چھاپنا ہے۔ جس کی بیوی یا بچے تو ہونے ہی نہیں چاہئیے۔
میری نظر میں تو ایسی کم ظرف ماؤں اور لالچی باپوں کو بیٹوں کی شادی کرنی ہیں نہیں چاہئیے اور معاشرے کے اتنے سنگین مسئلے پر کوئی غور بھی نہیں کرتا۔ میڈیا عوام کی تربیت کم سنسنی زیادہ پھیلاتا ہے۔ سیاستدان اقتدارِ اور کرسی کی خاطر مرے جارہے ہیں۔ علمائے کرام حلال اور حرام کے تعین میں مصروف ہیں۔ تبلیغی اجتماع نا جانے کس کی تربیت اور کس کے آگے تبلیغ کر رہے ہیں۔
ہم اچھے مسلمان تو کیا بنتے، شاید انسانیت کے درجے سے بھی گر چکے ہیں۔ ہم نے فیصلے روز محشر اور اللہ تعالیٰ پر چھوڑنے کی بجائے، اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ دوسروں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے کرتے ہم ان کی موت کا وقت اور طریقہ بھی متعین کرنے لگ گئے ہیں۔ کیا ہم روز محشر اللہ تعالیٰ کے غضب کو برداشت کر پائیں گے؟ مجھ سمیت سب کو یہ سوال خود سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔