Allah Ki Marzi
اللہ کی مرضی
ہر پاکستانی مسلمان دن میں کوئی 20 سے 25 مرتبہ مختلف اوقات میں یہ جملہ اپنی انفرادی حیثیت میں بولتا ہے۔ لیکن بولنے اور عمل کرنے میں بڑا گہرا فاصلہ ہے۔ جس شخص نے یہ فاصلہ طے کر لیا وہ آخرت میں نہیں بلکہ دنیا میں بھی فلاح اور سکون پا گیا۔
ہر انسان اپنی ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس حیثیت میں اس کے اپنے جذبات ہیں اور ان جذبات کا اچھا یا برا اثر بھی ہوتا ہے۔ کلی طور ہر دو قسم کے جذبات ہیں۔ خوشی اور غم (باقی جذبے ان کا جزو ہیں)۔ خوشیاں ہمیشہ مختصر لگتی ہیں۔ جبکہ غم کی کالی رات ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ خوشی کا کریڈٹ ہم زیادہ تر خود لیتے ہیں اور غموں کا بوجھ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قرآن میں جابجا اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر شے میری طرف سے ہے یعنی باذن اللہ۔ اللہ تعالیٰ صرف خالق و مالک نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے تخت پر براجمان ہیں اور اپنی مخلوق کے ہر فعل پر ان کی نظر ہے۔ کالی رات میں کالے پہاڑ پر ایک کالی چیونٹی بھی رینگتی ہے تو اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں ایک پتا بھی میرے عالیشان ربّ کے حکم کے بغیر نہیں گرتا۔ بادشاہ اللہ ہے اور اس فانی دنیا میں اقتدار کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا، یہ بھی ربّ کا فیصلہ ہے۔ تو پھر کون ہے جو میرے ربّ کے فیصلوں پر گلہ بھی کر سکے؟
ہم لوگ اقتدار کے مزے تو جی بھر کر لوٹتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ یہ اقتدار واپس لے لیں تو چیخیں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ فلاں نے غداری کی، فلاں نےدھوکہ دیا، فلاں میر جعفر اور میر صادق ہیں۔ انسان جو کچھ دیر کے لئے اپنا سانس سینے میں قید نہیں رکھ سکتا کیا وہ باقی فیصلے خود کر سکتا ہے؟ جو کچھ ہے اللہ کی مرضی ہے جس دن اس بات پر دل و دماغ دونوں نے گواہی دے دی اس دن ایمان مضبوط بھی ہوگیا اور ہر فیصلے پر صبر بھی آ جائے گا۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کفار کے خلاف جنگ کرتے تھے کبھی ہار جاتے کبھی جیت ان کا مقدر بنتی۔ محنت کرتے، دعا مانگتے، اور فیصلہ ربّ العالمین پر چھوڈ دیتے۔ نبی ﷺ جنات کے بھی نبی تھے۔ لیکن کبھی ان سے مدد نہیں مانگی۔ ہم ایسے ںبی ﷺ کے امتی ہو کر کن کاموں میں پڑ گئے؟ جب اقتدار کی خوشی سے لطف اٹھایا ہے تو اب اس کے جانے کا غم بھی حوصلے سے برداشت کریں۔ کسی اتحادی حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا فرق صرف عوام کو پڑ رہا ہے۔ کیا اتنے لوگوں کو تکلیف دے کر اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دینے کے لئے سب حکمران تیار ہیں؟
اس دنیا میں تو آپ خود کو لوگوں کے جھرمٹ میں چھپا لیں گے۔ ہم یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ روز محشر بیٹا، ماں باپ اور ماں باپ اولاد کو نہیں پہچانے گے۔ کیا اس وقت کسی کی سزا یا جزا کے خلاف کوئی احتجاج ہوگا؟ اس دنیا فانی میں موت کے خوف سے گھروں میں بلٹ پروف شیشے لگوا لیتے ہیں۔ کیا ملک الموت کو کوئی آج تک روک سکا ہے؟ تو اب وہ کیسے رک جائے گا؟
میرے خیالات کو ایک عام انسان کے خیال کے طور پر لیا جائے۔ صرف اپنے ناقص مشاہدے اور معلومات کی بنا پر حالات حاضرہ پر اظہار رائے کیا ہے۔ کوئی بات غلط لگے تو معافی کی طلبگار ہوں۔