Aik Akhri Koshish
ایک آخری کوشش
چند دن پہلے گھر کی بالکونی میں ایک چھوٹا سا کبوتر آ کر بیٹھ گیا۔ ہمیں محسوس ہوا کبوتر کچھ سست لگ رہا ہے۔ بچوں نے اس پر پانی ڈالا کہ شاید گرمی سے نڈھال ہے۔ کبوتر چلتا چلتا سائیڈ پر جا کر چھپ گیا۔ میں نے بچوں سے کہا چھوڑ دو۔ سستانے کے بعد خود ہی اڑ جائے گا۔ دس پندرہ منٹ بعد بچوں نے جب دوبارہ دیکھا تو کبوتر جو اپنے پر سمیٹے بیٹھا تھا۔ پر کھول رہا تھا۔ مگر اڑ نہیں پا رہا تھا۔
میں نے بچوں کو ڈانٹ کر اندر بلایا اور کہا خود ہی اڑ جائے گا، شاید تم لوگوں سے ڈر رہا ہے۔ پانچ منٹ بعد بچوں کا تجسس انھیں پھر کبوتر کے پاس لے گیا۔ مگر اب وہ کبوتر مر چکا تھا۔ میں نے دیکھا کہ مکمل پر پھیلائے کبوتر مرا ہوا تھا۔ مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ پرندے کی جان اس طرح جاتی ہے۔ یعنی اس نے ایک آخری پرواز لینے کی بھرپور کوشش کی۔ مگر قدرت کو منظور نا تھا۔
پھیلے ہوئے پروں کو سمیٹنے کی بھی مہلت نا ملی اور آخری پرواز کی حسرت دل میں ہی رہ گئی۔ وہ بچے جو بڑے شوق سے کبوتروں اور چڑیوں کو دانہ پانی ڈالتے تھے۔ مرنے کے بعد اسے ہاتھ لگانے کو بھی تیار نا تھے۔ کسی دوست کو بلا کر لائے، جس نے پروں سے پکڑا اور گلی میں پھینک دیا۔ کل کہانی بس اتنی سی ہے اور سوچنے سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں بھی ہیں۔
ہمارا پیارا ملک پاکستان پچھلے کچھ سالوں سے کچھ عجیب سے حالات سے دوچار رہا۔ اس ترقی یافتہ دور میں جب سب دنیا کے ممالک اپنی ترجیحات پر عمل کرتے ہوئے، اپنے ملکوں کو جدید خطوط پر چلانے کی کوشش میں مصروف تھے اور ہیں۔ ہمارا ایک کھلاڑی ایک ایٹمی ریاست سے کھیل رہا تھا۔ کبھی کسی طرف سے ہٹ کرتا تھا، تو کبھی دوسری طرف سے پوری قوت کے ساتھ ہٹ لگاتا تھا۔ میدان خالی تھا۔ امپائر بھی نظروں سے اوجھل تھا۔ سو کھلاڑی نے جو چاہا وہ کیا۔ جی بھر کر دل کی آرزوئیں پوری کیں اور اپنے کھیلنے کے شوق کو انسانوں تک لے گیا۔ لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنا شروع کر دیا۔ عام لوگوں کو اتنی تنگی دی کہ انھیں اپنا کھانا پینا پورا کرنا مشکل ہوگیا۔ مگر اس کھلاڑی کا کھیلنے کا شوق پورا نہیں ہوا۔ نا ہی اس کے خوفناک قہقہے بند ہونے۔
مگر ہر شے ایک نا ایک دن اپنے انجام کو پہنچتی ہی ہے۔ پھر جب انجام قریب آیا۔ تو کھلاڑی نے خود کو ایک طرف چھپا لیا۔ سوچا شاید پورا پاکستان چیختا چلاتا، سروں پر خاک ڈالتا سڑکوں پر ماتم شروع کر دے گا اور اسے ڈھونڈ کر لے آئے گا۔ مگر ہوا بالکل توقع کے الٹ۔
اب اس کھلاڑی کی بچی کچی ٹیم نے سوچا کیوں نا پورا زور لگا کر ایک آخری پرواز لی جائے۔ شاید اڑنے کو آسمان مل جائے۔ مگر ساری طاقت کا استعمال بے سود رہا۔ ظلم یہ کہ دانہ پانی کے برتن بھی اٹھا لیے گئے۔ کیوں کہ بارش شروع ہوگئی۔ سب بارش سے بچنے کے لیے گھروں میں چلے گئے۔
اب کھلاڑی تو سر گھٹنوں میں دیئے بیٹھا ہے اور اس کی باقی ماندہ ٹیم کٹی پتنگ کی طرح اڑتی پھرتی ہے۔ بارش نے اس کٹی پتنگ کے پرخچے اڑا دئیے اور کوئی اسے لوٹنا بھی نہیں چاہتا۔ یہ پتنگ ریزہ ریزہ ہو کر آہستہ آہستہ زمین پر گرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ کیوں کہ سردیوں کی بھلی دھوپ میں یہ آسمان کی وسعتوں کو چھوتی ہوئی، ضرورت سے زیادہ بلندی پر چلی گئی تھی۔ اب کٹ کر نیچے گرنے میں وقت لگ رہا ہے۔
بس کل اتنی سی کہانی ہے اور عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
سب اس کہانی کو کھینچ کھانچ کر کچھ قسطوں کا اضافہ کر بھی لیں۔ تو کوئی فائدہ نہیں۔ کیوں کہ انجام ہو چکا ہے اور کہانی ختم ہو چکی ہے۔