Ab Bas Kar Dein
اب بس کر دیں
پاکستان کے ایک مشہور کنوارے سیاستدان ہیں۔ میں جب سے انھیں دیکھتی آرہی ہوں۔ یہ مختلف پارٹیوں میں موجود رہے اور آخر میں تھک ہار کر اپنی ذاتی یک رکنی سیاسی جماعت بنا لی۔ ہمیشہ بڑے فخر سے اپنی وزارتوں کی تعداد بتاتے رہے ہیں۔
وزارت کے اتنے شوقین ہیں کہ ایک جماعت کے سربراہ سے سمندر کی لہریں گننے کی وزارت لینے پر بھی راضی ہو گئے تھے۔ اسی طرح جلاؤ گھیراؤ، مر جاؤ، کے نعرے بھی لگاتے رہے ہیں۔
نفسیاتی طور پر خاصے مضبوط انسان ہیں اس لیے اپنی ذاتی آڈیو، ویڈیو عام عوام کے سامنے آنے کے بعد بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ خود کو بڑے فخر سے گیٹ نمبر چار کی پیداوار کہتے ہیں اور عام عوام سوچتی ہی رہ جاتی ہے کہ شاید کسی ہسپتال کا نام گیٹ نمبر چار ہے۔
اداکاری کے بھی شوقین ہیں۔ اکثر تیسرے درجے کی جاسوسی فلموں کے ہیرو بھی بن جاتے ہیں۔ دشمنوں سے بچنے کے لئے موٹر سائیکل پر ایسے بھاگتے ہیں کہ خود ہی اپنی پرفارمنس دیکھ کر اش اش کر اٹھتے ہیں۔
روحانیت بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اکثر چلے کاٹنے کا ذکر کرتے ہیں۔ فخر سے خانہ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنے کی سعادت کا ذکر ہمیشہ کرتے ہیں۔ ان پر الہام بھی ہوتے ہیں۔ کچھ دل جلے اس صلاحیت کے حسد میں، انھیں فال والا طوطا کہتے ہیں۔ جس پر عام عوام کو سخت اعتراض ہے۔ کیونکہ طوطا بے حد خوبصورت پرندہ ہے اور اس کے بال و پر" اپنے" ہوتے ہیں۔
دوسروں کے منہ چومنے اور اپنا ماتھے پر بوسہ لینے کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ اکثر و بیشتر ایسی ویڈیوز منظر عام پر لاتے رہتے ہیں۔ جن سے ان کا عوامی تشخص نمایاں ہو جائے اور ان کی طبعیت کی سادگی کا پتا چلے۔ کفایت شعاری کا یہ عالم ہے کہ اپنی اوائل عمری کا کوٹ اس آخری عمر میں پہنتے ہیں اور میڈیا پر سب کو بتاتے ہیں۔ ماضی میں گندم کے بحران کا سبب عوام کے زیادہ روٹیاں کھانے کو قرار دیتے تھے۔
کچھ عرصے سے ان کی الہامی فائبر آپٹک کیبل کو ایک شارک کھا گئی۔ تب سے ان کا الہامی اور پیش گوئیوں کا سفر رکا ہوا ہے اور ستم یہ کہ کوئی بھی سمندر میں اتر کر اس فائبر آپٹک کیبل کی مرمت بھی نہیں کر رہا ہے۔
اب انھوں نے عدالتوں میں موجود اپنے دائر کیے گئے پرانے کیسز پر توجہ مبذول کی ہے۔ کیوں کہ سیاسی طور پر زندہ رہنے کے لیے کچھ تو سامان چائیے۔
اب ان کے دل میں اورر سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلانے کی آرزو نے دوبارہ سر اٹھایا ہے۔
اوررسیز پاکستانیوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اس سے انکار نہیں۔ یہ لوگ اپنے اہل وعیال کو پیسے بھیجتے ہیں۔ جو ہم عوام کے کام آتے ہیں۔ کئی خاندانوں کی کفالت ہوتی ہے۔ کئی فلاحی تنظیموں کے زریعے پاکستان میں عام عوام کے لیے فلاحی منصوبے چلتے ہیں۔
مگر ان سب باتوں کے باوجود ہم ایک کروڑ سے زائد ان لوگوں کو ووٹ کا حق کیسے دے دیں۔ جو زمینی حقائق سے واقف نہیں۔ جو پاکستان میں رہتے نہیں۔ مگر پاکستان کے سیاسی نظام میں ٹانگ اڑانا اپنا فرضِ سمجھتے ہیں۔
ان اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان کی اتنی فکر ہے کہ پاکستان میں آکر رہنا گوارا نہیں کرتے۔ کئی تو دہائیوں تک اپنے ملک کا رخ نہیں کرتے، مگر فکر ضرور کرتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ ہم عام عوام کو یہ عقل کہاں؟ کہ ملک کی باگ ڈور کس کے ہاتھ تھمانی ہے۔ اس لیے یہ دیار غیر میں بیٹھے، اس غیر ملک سے وفاداری کی قسم کھاتے ہیں۔ مگر رعب ہم پر جماتے ہیں۔
ہمارے سیاستدان، وزرا، چیف جسٹس حتی کہ سابق آرمی چیف کی تذلیل کرتے ہیں۔ پاکستان سے بھاگنے والوں کو پناہ دیتے ہیں۔ اغیار کے ایجنڈے پر چل کر پاکستان میں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں اور ہمارے لوگ ان کے لیے ووٹ کا حق عدالتوں میں کیس کرکے مانگتے ہیں۔
ان کے پاس ووٹ کا حق تو پہلے سے موجود ہی ہے۔ آئیں ٹکٹ کے پیسے خرچ کریں اور اپنی پسند کی جماعت کو ووٹ ڈالیں۔
اندازہ کریں۔ ہمارے سروں پر حکمرانی کا ڈنڈا برسانے کے لیے کبھی ساسیں فیصلہ کرتی ہیں۔ تو کبھی اوورسیز پاکستانی۔
کبھی عدالتیں عوام کو بے مائیگی کا احساس دلاتی ہیں، تو کبھی سیاسی جماعتوں کے چئیرمین۔ پاکستان کی عوام صرف سر تسلیم خم کرنے کے لیے ہے۔
عام عوام تو سوچتی ہے کہ اگر پاک فوج نا ہوتی تو شاید اشرافیہ ہنٹر پکڑ کر ہمیں اپنا غلام بنا چکی ہوتی یا دہشت گرد ہم پر خود کش حملہ کر چکے ہوتے۔
میری پاکستان کے اس سنئیر کنوارے سیاستدان سے سے گزارش ہے کہ اس عمر میں انھیں اللہ کا ذکر کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ پاکستان کی فکر چھوڑ کر اپنی آخرت کی فکر کریں اور پاکستان کے لیے صرف دعا کر دیا کریں۔ یہی کافی ہوگا۔