Ghurbat
غربت
پاکستان کے عوام پہلے جنوبی ایشیاء میں مالدار اور امیر ٹہرائے جاتے تھے۔ پاکستان کے عوام کے ساتھ پیسہ تھا اور پیسہ بھی اس لئے تھا کہ پاکستان کے زیادہ تر عوام دیگر ممالک میں مسافری کرتے تھے اور وہاں کچھ کماتے تھے اور اپنے پیاروں کو بھیجا کرتے تھے۔ لیکن اب اگر ہم اندازہ لگائے تو حالات وہ نہیں ہے۔ حالات میں بہت تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔
پہلے پاکستانیوں کو دیگر ممالک میں کام ملتے تھے اچھی جاب کرتے تھے چاہے وہ سعودی عرب ہو، دبئی ہو ملائشیا ہو یورپی ممالک ہوں لیکن اب وہ سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔ پاکستانی اب غریب ملک میں آگئے ہیں اور یہاں مزدوری کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ پاکستانی تو اس لئے باہر ملکوں میں محنت مزدوری کیا کرتے تھے کہ ان کو کچھ ڈبل پیسے ملتے تھے لیکن پاکستان کا پیسہ تو بلکل گر چکا ہے۔
پاکستان میں اگر کوئی بندہ فجر کی نماز سے دہاڑی شروع کرے اور شام تک اپنا پسینہ گرائے وہ 1000 روپے سے زیادہ نہیں کما سکتا۔ پاکستان میں پہلے تو کسی کو کام ملتا نہیں ہے۔ سب سے پہلی بد نصیبی تو یہ ہے کہ کام تو ہر کوئی چاہتا ہے لیکن کام ملتا نہیں ہے۔ اور اگر کام مل جائے تو ایک دو روز کا ملتا ہے باقی کام کرانے والے کے پاس بھی پیسہ نہیں ہے کہ کام کرنے والے کو دے دے۔
میں روز دیکھتا ہوں زیادہ تر پاکستانی واپس آچکے ہیں۔ باہر ملکوں سے اور کہتے ہیں کہ باہر ملکوں میں بھی ہمیں کوئی کام نہیں دیتا اور سعودی عرب میں تو زیادہ تر لوگ کام تو کرتے ہیں لیکن ان کو ان کی اجرت نہیں ملتی ان کے ساتھ بھی زور زبردستی کی جارہی ہے۔ آخر پاکستانی جائے تو کہا جائے۔ بازاروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ ریڑھی والے پریشان، دکاندار پریشان، ہوٹل والے پریشان، ڈرائیور پریشان اگر اس ملک میں کوئی خوش ہے تو وہ ہے اس ملک کے سیاستدان۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست دان روز بروز ترقی کر رہا ہے اور عوام سے کہتا ہے کہ ملک تباہ ہوچکا ہے حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ ملک کیسے تباہ ہے اس میں تو سیاستدان کے پروٹوکول میں کمی نہیں آئی، ان کے خرچے کم نہیں ہوئے، ان کے بینک اکاؤنٹس میں پیسے کم نہیں ہوئے، ان کے گھروں اور حویلیوں میں نوکروں کی کمی نہیں ہوئی۔
تازہ ترین سروے کے مطابق اس وقت پاکستان میں دس کروڑ عوام غربت کے لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بڑی حیرانی اور پریشانی کی بات ہے کہ بائیس کروڑ میں دس کروڑ غربت کے لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان میں فحاشی میں اضافہ ہورہا ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مردوں کو مزدوری نہیں مل رہی اپنے بچوں کے پیٹ پالنے کیلئے مختلف راستے ڈھونڈے جاتے ہیں۔
پاکستان میں خودکشیوں کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ کل ہی کی بات ہے ہمارے علاقے میں ایک ہوٹل کا نوکر جو کہ ایک مقامی ہوٹل میں محنت مزدوری کر رہا تھا، غربت سے تنگ آکر خودکشی کرلی ہے۔ اب اس کی زمہ دار کون ہے یہی ریاست کے ٹھیکیدار۔ سیاستدانوں کی پیٹ تو غریب کی ٹیکسوں سے نہیں بھرے، غریب محنت مزدوری تو کر رہا ہے لیکن بے تحاشہ ٹیکس کیسے ادا کرے، کمر توڑ مہنگائی کو کیسے برداشت کرے، بجلی کے بل کیسے ادا کرے، گیس کے بل کیسے ادا کرے، گھروں کے کرایہ کیسے ادا کرے۔
سیاستدان آخر کار اس غریب عوام سے اور چاہتے ہیں، عوام کے چمڑے تو اتر گئے ہیں۔ اس مہنگائی کی دور میں سفید پوش عوام بھی رل گئے۔ غریب تو غریب ہے سوال کرتا رہتا ہے مساجد میں، بازاروں میں، مارکیٹوں میں لیکن سب سے زیادہ تکلیف اس سفید پوش کو ہے جو نہ کسی کے سامنے ہاتھ اگے کرسکتا ہے اور نہ ایسے سوچ سکتا ہے۔ مڈل کلاس عوام زیادہ پریشان ہیں۔ سیاستدان نے عوام کو خودکشیوں پر مجبور کردیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس مہنگائی کو مات دینا ہوگی تو صرف ایک طریقہ ہے انقلاب کا۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کو اس ناسور کے خلاف نکلنا ہوگا، اس موجودہ سسٹم کے خلاف آواز اٹھانا ہوگا۔ اور کوئی حل نہیں ہے۔ اور کوئی چارہ نہیں ہے، اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ جب تک سارے ملک میں ملک گیر احتجاج نہیں ہوگا، پہیہ جام ہڑتال نہیں ہوگا، شٹر ڈاون ہڑتال نہیں ہوگا۔ سیاستدان وہی کرتا رہے گا جو کرتا ہے۔