Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sadiq Amin
  4. Ye Chehre Nahi Chahiye

Ye Chehre Nahi Chahiye

یہ چہرے نہیں چاہئے‎

پاکستانی سیاست عجب ہے۔ یہاں چہرے پارٹیوں سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں چند گھرانوں کی کنیز ہے۔ وہ جسے چاہے اسے ہانکتے ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اندر خود جمہوریت نہیں۔ پارٹیاں چند اشخاص کے اردگرد گھوم رہی ہوتی ہیں۔ ہر پارٹی پہ ایک گھرانہ مسلط ہوا ہے اور وہ پارٹی اس گھرانے کی فیملی لمیٹیڈ بن چکی ہے۔ جیسے مسلم لیگ ن شریف خاندان کی، پیپلز پارٹی زرداری خاندان کی اور اے این پی ولی خان گھرانے کی فیملی لمیٹیڈ بن چکی ہے۔

پی ٹی آئی استثنا سمجھی جا رہی تھی مگر اس پر بھی قبضہ ہوچکا ہے۔ پاکستانی سیاست میں چہرے اتنے اہم ہوچکے ہے کہ اگر پارٹی ڈوب رہی ہو تو ڈوبنے دیں مگر قیادت کسی دوسرے ہاتھ میں نہ جانے دیں۔ کوئی بھی پارٹی اندرونی طور پر صاف و شفاف الیکشن نہیں کراتی کیونکہ اسکی وجہ سے قیادت ہاتھ سے جانے کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے اسلئے کبھی کوئی پارٹی قیادت چننے کی وجہ سے الیکشن نہیں کراتی۔ یوں مسلم لیگ ن میں شاہد خاقان جیسے سینئیر قیادت کو سائڈ لائن کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ اکثر سیاسی افراد نے ہر حکومت میں بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ چہرے کسی کے اپنے یا پرائے نہیں ہوتے۔ یہ صرف حکومت کے اپنے ہوتے ہیں۔ پاکستانی سیاسی اکیڈمیہ میں ان چہروں کو موسمی پرندیں بھی بولتے ہیں۔ یہ چہرے ہر حکومت میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ جس بھی سیاسی جماعت کی حکومت آنے کی ہوا چلتی ہے اسکے ساتھ یہ شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ چہرے مشرف کے ساتھ تھے۔ پھر زرداری کے جیالے بنے جب انکی کشتی اور نہیں چل پا رہی تھی تو مسلم لیگی بنے۔ جب انصافی کشتی کو تیز سفر کرتے دیکھا تو سب اسکے ساتھی ٹہرے اور عمرانی گن گاتے رہے۔ لیکن جیسے ہی انصافی کشتی ہچکولے کھانے لگی اور سفر میں خلل آگیا تو یہ پہچانے ہوئے چہرے سارے کے سارے نئے سفر پر چلے گئے۔

کسی نے استحکام میں انقلاب دیکھا تو کوئی انصافی پارلمنٹیرین کی کشتی میں سوار ہوگئے۔ کسی نے آزاد جانا بہتر سمجھا۔ مگر یہ چہرے پھر سے حصہ داری مانگنے کے لئے تیار ہوگئے ہے۔ ان چہروں کی بھیانک شکل یہ ہے کہ یہ اکثر اوقات پورے نظام پہ بھاری پڑ جاتے ہیں۔ انکی چند سیٹھیں حکومت کو قائم کرنے یا گرانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ اسلئے انہیں اپنی اہمیت کا پورا اندازہ ہوتا ہے۔ یوں یہ اسکا بہت فائدہ اٹھاتے ہے۔ حکومت وقت کو بلیک میل کرتے ہے، اپنے مفادات محفوظ کرتے ہیں اور خوب لوٹ مار کرتے ہیں۔

پاکستانی جمہور کو ان چہروں کے آنے یا جانے سے فرق نہیں پڑتا۔ جمہور کو جمہوریت چاہئے۔ جمہوریت جمہور کے فیصلے جمہور کے ذریعے ہونے کا نام ہے۔ سیاست، قانون سازی اور فیصلہ سازی میں جمہور کا کہنا سننا جمہوریت ہے۔ سیاست کا مرکز جمہور اور مسائلِ جمہور جمہوریت کی اہم ستون شمار ہوتا ہے۔ پاکستانی عوام کو ان چہروں کی تبدیلی نہیں چاہئے بلکہ منشور چاہئے۔ عام آدمی کو وہ حکمتِ عملی چاہئے جس میں اسکا ذکر ہو۔ انکے مسائل کا حل ہو۔ جمہور کو اپنے خوشحال مستقبل کا نوحہ سننا ہے۔ اسے یہ یقین دہانی چاہئے کہ آئندہ کوئی ان سے قربانی نہیں مانگے گا۔ جو چھ نسلوں نے مستقبل کے نام قربانی دیں اب اسکا صلہ اسے ملے گا۔ جمہور اپنی آواز ایوانوں اور قانون سازی کے مراکز میں سننے کے لئے بیتاب ہے۔

مگر بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری آوازوں کے نام پر ابن الوقت پیدا ہوتے ہے۔ ادھر جمہوری و سیاسی طاقت پیدا نہیں ہوتی۔ جمہور سے ووٹ لینے والے سیاسی و جمہوری پارٹیاں خود کبھی جمہور و جمہوریت کےلئے کھڑے نہیں ہوتی۔ وہ طاقت کے مراکز کے گڈ بک میں رہنے کے متلاشی ہوتے ہیں۔ جمہور خوش ہو یا ناراض ہو مگر طاقت کے مراکز خوش ہو یہ جمہوری و سیاسی پارٹیوں کےلئے ضروری ہوتا ہے۔ یہاں سیاسی جماعتیں بھی موسمی ہوتی ہیں۔ گود میں بیٹھنے کا موسم آتے ہی یہ جاکر گود میں بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر ووٹ کو عزت دینا بھول جاتے ہیں۔ عام آدمی کو انصاف دینا بھول جاتے ہیں۔

یہ پاکستانی جمہور کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ پاکستانی جمہوری نظام میں جمہور نہیں ہے۔ جمہوریت بنا جمہور کے چل رہی ہے۔ جمہور کے متعلق فیصلہ سازی میں جمہور کا کوئی کردار نہیں ہے۔ جمہور کے ہاں مقبولیت اور طاقت کے مراکز کے ہاں قبولیت میں فرق ہے اور اس سے بڑی بات یہ ہے کہ جمہور کے ہاں مقبولیت قبولیت کے سامنے ہار رہی ہے۔ اس وقت مقبولیت قبولیت کے سامنے سرنگو بیٹھا ہے۔

جمہور کو ووٹ ڈالنے کے لئے کہا تو جا رہا ہے مگر انکے ووٹ سے انکا من پسند رہنما منتخب ہوگا یا نہیں یہ یقین دہانی کوئی نہیں کرا رہا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ عوام کی ووٹ سے زیادہ طاقتور حقیقت موجود ہے۔ اب چہرے تبدیل ہوجائے یا نہ ہوجائے کیا فرق پڑتا ہے۔ بس آس اتنی ہے کہ ایسی حکمتِ عملی بنے جو جمہور کے حال کو خوشحال کریں۔

Check Also

Phone Hamare Janaze Nigal Gaye

By Azhar Hussain Bhatti