Uljhano Ka Shikar
الجھنوں کا شکار
پاکستان عجب الجھنی سیاست کا شکار ہے۔ شکار بھی ایسا کہ پچھتر سال گزر گئے مگر حال پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے۔ اگر اثر پڑا ہے تو اعتماد پر۔ پہلے اعتماد اب بد اعتمادیاں ہے۔ اگر اثر پڑا ہے تو امیدوں پر۔ پہلے اچھے مستقبل کی امیدیں اب حال کی ناامیدیاں اور مستقبل مدہوش ہے۔ شکار ایسا کہ نکلنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور لے گا بھی کیسا؟
جب ہر نئے موقع پر پیچھے ہٹنے کے بجائے، چیزوں کو درست کرنے کی بجائے اور جمہوریت کو چلنے کی بجائے پرانہ تجربہ، کچھ نئے اور کچھ پرانے انداز میں، ایک بار پھر دہرایا جائے تو درستگی کیسی؟ آر ٹی ایس فیل کروانے اور زبردستی پریس کانفرس کروانے میں کیا فرق ہے؟ عدالت کے زریعے ملک کے وزیراعظم کو نااہل کرکے کرسی سے ہٹانے اور بے شمار پرچہ جات اور نااہلی کے ذریعے نئے الیکشن سے آوٹ کرنے میں کیا فرق ہے؟ کل ایک کی کٹائی آج دوسرے کی کٹائی ہو رہی ہے۔
مشکل یہ ہے کہ الجھنیں وقت کے ساتھ اور گمبھیر ہوگئی ہیں۔ اداروں پر اعتماد نہ ہونے کی حد پہ آگئی ہے۔ معاشی حال تو پہلے بھی بدحال تھی مگر عوام کو جو اچھے مستقبل کی امیدیں دی جا رہی تھی اس میں الجھن پیدا ہوگئی ہے۔ مستقبل اب مدہوش ہے۔ کوئی نہیں جانتا ہے کہ نئی نسل کی کیا حالت ہوگی۔ اپنی معاشی ضرورت پورا کرنے کے لئے ملک سے باہر بھاگنا پڑے گا یا ملک کی معاشی صورت حال کبھی ٹھیک بھی ہو جائے گی؟
الجھن یہ ہے کہ الیکشن کی طرف سفر تیزی سے جاری ہے مگر پھر بھی امید پہ ناامیدی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ جب سے نگران سیٹ اپ بنا ہے کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرا ہے جو الیکشن نہ ہونے سے متعلق چہ مگوئیاں نہ اٹھی ہو۔ سپریم کورٹ کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو آٹھ فروری کی تاریخ دینا پڑی مگر الجھن دیکھو کہ پرسوں ہی لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے تناظر میں ڈی آر اوز اور آر اوز کی تربیت کا عمل بند ہوا جس سے ایک مرتبہ پھر انتخابات تاخیر کے شکار ہونے کے بادل منڈلانے لگے۔
بھلا ہو سپریم کورٹ کا کہ وہ اس بات پر بضد ہے کہ الیکشن ہوگا اور جلد سے جلد ہوگا۔ سپریم کورٹ کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے آخرکار الیکشن شیڈول جاری کردیا۔ جو الجھن دور کرنے میں معاون ہے۔ الجھن یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے انتظامات تیزی سے جاری ہونے کے باوجود اکثر سیاسی جماعتوں کی طرف سے ابھی تک باقاعدہ انتخابی سرگرمیاں شروع نہیں ہوئی ہیں۔ اگر کسی سیاسی جماعت نے شروع بھی کی ہے تو اتنی تیز نہیں ہے کہ الیکشن والا ماحول نظر آئے۔
پی ٹی آئی کا مستقبل الجھن میں ہے خصوصی طور پر الیکشن میں حصہ لینا اور پھر آزادانہ طور پر حصہ لینا تو اور بھی الجھن میں ہے۔ کسی کو نہیں پتہ کہ پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے گا کہ نہیں۔ پی ٹی آئی سیاسی قیادت کی اکثریت جیل میں ہیں اگر کوئی باہر ہے تو وہ خاموش ہے۔ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے بلے کا نشان پہ چہ مگوئیاں ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہیں۔ پی ٹی آئی کو بلہ ملے گا یا نہیں، ابھی تک ختمی نہیں ہے۔
الجھن یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ نہ لینے دیا گیا یا بلے کا نشان چھینا گیا یا سیاسی قیادت کے بغیر صرف وکیلوں کے زریعے حصہ لینا پڑا تو الیکشن کی شفافیت کیا رہے گی؟ کون اسے شفاف مانے گا؟ کیا ایسے الیکشن سے ملک میں سیاسی استحکام آجائے گا؟ اور اگر سیاسی استحکام نہیں آئے گا تو معیشت کیسی مستحکم ہوگی؟ یا صرف الیکشن کے نام پر ایک پریکٹیس ہوگی باقی کچھ نہیں۔
نوازشریف کی دھماکہ دار آمد نے ڈیل کی چہ مگوئیاں ساتوں آسمان تک پہنچائی جس سے بہت سے مسلم لیگی غلط اندازے لگا بیٹھے مگر زمینی حقائق نے جلد ہی لیگی قیادت کی آنکھیں کھول دیں۔ اب ایک طرف ڈیل کے الزامات کا بوجھ اور دوسری طرف یہ مشکل کہ اگر سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرسکے تو بننے والی حکومت کیسی ہوگی۔ اوپر سے عوام کو بھی اپنے ووٹ کی آزادی اور مینڈیٹ کے حوالے سے الجھن میں ڈال دیا ہے۔
عام آدمی سب سے بڑے الجھن میں ہے۔ عام آدمی سوچ رہا ہے کہ عام سیاسی حالات اور معاشی بحث میں تو ویسے بھی میرا ذکر نہیں ہوتا مگر اب تو الیکشن میں بھی میرا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ مسلم لیگ نے ووٹ کو عزت دلانی تھی مگر وہ بے عزتی پر اتر آئی ہے اور غیر جمہوری طاقتوں کی پیاری بن گئی ہے۔ پیپلز پارٹی نے کوشش کی مگر جب مقدرہ کے ہاں مسلم لیگ والی اہمیت حاصل نہ کرسکی تو عوامی اور انقلابی بن گئی۔
دوسری سیاسی جماعتوں کے ہاں بھی سیاسی بحث میں عوام کا نام نہیں۔ عوام کا حال بدحال اور مستقبل مدہوش ہے مگر کوئی سیاسی جماعت سنجیدہ انداز میں حل نہیں ڈھونڈ رہا ہے۔ سب کھوکھلے دعویں کر رہے ہیں۔ عوام کو بے وقوف بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ کوئی عوامی رائے میں دلچسپی لیتے ہوئے نظر نہیں آرہا۔ عام شہری الجھن میں ہے۔