Khayal
خیال
ایک مرتعش سوچ ہے۔ ایک کشمکش سی ہے۔ افراط و تفریط کا احساس ہے۔ کبھی جھنجھٹ ہے اور کھبی ششدری۔ یوں نامعلوم مگر پرمعنی ارتعاشی سفر۔ یہ سفر سوچ کی وجود کا سفر مگر پھر بھی یہ نامعلوم ہے کہ ارتعاش کتنا ہے اور سوچ کتنی ہے؟ سوچ اپنے وجود سے بےخبر ہے۔ دماغ کی شریانوں میں ارتعاش کو سوچ کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ یہ معلوم نہیں ہے۔
ایسے میں کون سوچ کو سوچ کہے گا جب اسے خود اپنے وجود کا علم نہیں ہے۔ یہ سفر کتنی اپنے ترتیب میں متوازن ہے یہ بھی معلوم نہیں ہے۔ یوں جب ترتیب کی توازن معلوم نہیں ہے اور وجود کے متعلق بھی واضح شواہد موجود نہیں ہے۔ بلکہ ایک ارتعاش کی موجودگی ہے تو کون اسے سوچ کہے گا؟
یہ کیا کہہ رہے ہو؟ کس ارتعاش کی بات کر رہے ہو؟ سوچ ہے یا نہیں؟ یہ بھی واضح نہیں کر رہے ہو۔ سوچ کا تعارف کئے بغیر ایک دھندلا سی عمارت کھڑی کر رہے ہو۔ واضح طور پر کچھ نہیں کہہ رہے ہو۔ جو بھی کہنا ہے واضح کہو۔
یہ ابہام کے نالوں میں، جوک در جوک، ایک تیز ارتعاش ہے۔ ویسے تو ابہام کے نالوں میں ارتعاش ضامنِ وجودِ سوچ ہے مگر اسکے لئے ترتیب اور ارتعاش کے وجود کا مکمل ہونا ضروری ہے۔ جس کی کم از کم شروعاتی و اختتامی سرے معلوم ہو۔ مگر ادھر شروعاتی و اختتامی سرے معلوم نہیں ہیں۔ ارتعاش کی ترتیب کے متعلق بھی کوئی واضح ثبوت موجود نہیں ہے۔ اگر ارتعاش بے ترتیب ہو تو پھر یہ ایک جھنجھٹ و کشمکش ہے۔ اگر ترتیب سے ہو تو اسے آپ سوچ کا ناپید اور نامکمل وجود کہہ سکتے ہو مگر پھر بھی سوچ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وجود مکمل نہیں ہے اور افتتاحی و اختتامی سرے بھی معلوم نہیں ہے۔
اوہ! اور مشکل کردیا۔ نامکمل ہے۔ ناپید ہے۔ سرے معلوم نہیں ہیں۔ کشمکش و جھنجھٹ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ کون سمجھے گا؟ آپ ایک واضح شکل و وجود کیوں پیش نہیں کر رہے ہوں؟
آپ یوں سمجھیں کہ موجودگی اور عدمِ موجودگی میں چند لمحوں کا فاصلہ۔ کچھ موجود ہے تو کچھ عدم بھی۔ یا یہ کہوں کہ وجود رکھتا بھی ہے اور عدمِ وجود بھی ہے۔
اوہ! جھنجھٹ بنا دیا۔ مجھے بلکل سمجھ نہیں آرہا ہے کہ آپ بولنا کیا چاہتے ہو۔ موجود کیا ہے؟ عدم کیا ہے؟
یہ امکانات کا ایک طوفان ہے کہ سوچ وجود پزیر ہوجائے۔ امید بھی یہی ہونا چاہئیے۔ کیونکہ دماغ کی شریانوں میں ارتعاش موجود ہے۔ اور یہ ہم جانتے ہے کہ ارتعاش ضامنِ وجودِ سوچ ہے مگر لاشعوری جھنجھٹ نے سوچ کو عدم کردیا ہے۔ یوں امکان ہے مگر پھر بھی سوچ عدم ہے۔
یار! تھکا رہے ہو۔ تھوڑا واضح طور پر بتاو۔
دیکھو! دماغ کی شریانوں میں ارتعاش اور امکانِ وجودِ سوچ و تصور اور عدم سوچ و تصور ہے۔ یا یوں کہوں کہ سوچ کی عدمِ موجودگی میں مظہرِ تصور مگر تصور خود بھی عدم ہے۔ الفاظ کی موجودگی میں فقدان و عدمِ الفاظ۔ یوں زبان آدھی نم ہے مگر کچھ بتانے کو نہیں، کچھ بتا نہیں سکتا۔
آپ نے عجب جھنجھٹ بنائی ہے۔ بہت مشکلیں کھڑی کر رہے ہو۔ بات بتا تو رہے ہو مگر سمجھا نہیں رہے ہو۔ بتا کر سمجھانا ہے یا نہیں، صاف بتاو؟ یہ مشکلیں کم از کم میں نہیں جھیل سکتا۔ جو بھی کہنا ہے ایسے کہو کہ مجھے سمجھ آجائے۔
آپ یوں جانو کہ جو موجود ہے وہ وجود نہیں رکھتا اور جو نہیں ہے۔ وہ کیا بتاو؟
اس کا مطلب؟
مطلب یہ ہے کہ ایک طلب ہے مگر معلوم نہیں، کوئی چیز متعین نہیں۔ حدود نہیں رکھتا۔ نہ شروعاتی سرا معلوم ہے اور نہ اختتامی سرا۔ امکانات بہت ہیں مگر پھر بھی کوئی توقع نہیں۔ معلوم نہیں کہ سوچ وجودِ موجود ہوگا کہ نہیں اور اگر ہوگا تو اس میں کس چیز کا آسرا ہوگا۔ کس چیز کا نہیں۔ آسرا ہوگا بھی کہ نہیں؟ یہ بھی معلوم نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ طلب ہے مگر کوئی چیز سمجھنے کا نہیں۔ جو سمجھ نہیں سکتا وہ سمجھا کیسے سکتا ہو؟ اسلئے جو موجود ہے وہ سمجھا نہیں سکتا۔
اسکا مطلب کیا ہوا؟ میں اسکو کیا سمجھوں اور کیسے سمجھوں؟
آپ یوں لیجئے کہ جو موجود ہے وہ خود اپنے وجود سے عدم ہے اور لاوجود ہے۔ ابہام کے نالوں میں ایک سفر جاری ہے۔ دماغ کی شریانوں میں ایک ارتعاش موجود ہے۔ سوچ کے امکانات موجود ہے۔ یوں امکانات کی امکان ہے بلکہ ایک رجحان موجود ہے۔ رجحان امکان کا ہے اور امکان سوچ کی وجود کا۔ یوں امکان کا وجود موجود ہے۔ ارتعاش اور سفر کا وجود موجود ہے۔ مگر اس سے باہر کیا ہے؟ اس سے باہر کوئی وجود موجود نہیں۔ باہر حقیقت میں جس چیز کا امکان ہے وہ وجود نہیں رکھتا۔ یوں موجود بھی عدمِ وجود ہے۔