Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sadia Tahir
  4. Hamare Doctor

Hamare Doctor

ہمارے ڈاکٹر

مسیحائی ویسے تو ایک مقدس فریضہ ہے لیکن موجودہ دور میں یہ فرض سے زیادہ ایک کامیاب کاروبار بنتا جا رہا ہے۔ جس طرح مارکیٹ میں ہر چیز کی کئی اقسام موجود ہوتی ہیں اسی طرح مسیحائیت کے اس بازار میں ڈاکٹروں کی بھی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ اگر خدا نخواستہ آپ کو کوئی مرض لاحق ہو گیا ہے تو اس کے لیے آپ کس قسم کے ڈاکٹر کا انتخاب کرے گے؟ یہ آپ کی جیب پر منحصر ہے کہ وہ کتنا بوجھ برداشت کرسکتی ہے۔

اگر آپ پرائیویٹ ہسپتال میں جانا چاہتے ہے تو اس کے لیے آپ کی جیب میں کم از کم ابتدائی رقم بیس سے تیس ہزار تک ہونی چاہیے۔ یہاں کے ڈاکٹر بہت شائستہ انداز میں مریض کی کھال اتراتے ہیں۔ مریض علاج نہ کروائے تب بھی مرتا اور کروائے تب بھی مرتا ہے۔ اگر مریض کی صرف داڑھ میں ہی درد ہے تو اس کے لیے بھی بعض اوقات پورا سی ٹی سکرین کروایا جاتا ہے۔ مزید دس پندرہ غیر ضروری ٹیسٹوں کی ایک لمبی لسٹ تھمائی جاتی ہے۔ اس طرح اچھی خاصی رقم بہت اچھے طریقے سے مریض کی جیب سے رخصت ہوتی ہے۔

پرائیویٹ ڈاکٹروں کے پاس عام لوگ نہیں جا سکتے وہاں صرف دل گردے والے لوگ ہی جا سکتے ہیں کیونکہ اگر آپ کےگردے میں تکلیف ہے تو ہوسکتا ہے اس کے علاج کے لیے آپ کو اپنا دوسرا گردہ بیچنا پڑے۔

اب ذرا نظر ڈالتے ہیں سرکاری ڈاکٹروں پر یہ روئے زمین پر پائی جانے والی بہت اعلیٰ و ارفع مخلوق ہے۔ اگر آپ ان کے پاس علاج کے لیے جا رہے ہیں تو آپ کے پاس دھکے کھانے، ادھر ادھر بھاگنے، گھنٹوں انتظار کرنے کا طویل اور صبر آزما تجربہ ہونا ضروری ہے۔ جب آپ کو انتظار کرتے ہوئے دو گھنٹے ہو جائے تو ڈاکٹر صاحب/صاحبہ اپنے کمرے میں تشریف لاتے ہیں۔ اور اپنا سرکاری فرض بحسن طریقے سے نبھاتے ہوئے فی منٹ کے حساب سے کم از کم دو مریض تو چیک کر ہی لیتے ہیں۔

بیچارہ مریض جس نے ابھی اپنا مرض اور ا اس کی علامات بھی صحیح سے نہیں بتائے ہوتے اس کا منہ کھلے کا کھلا ہی رہ جاتا ہے اور ڈاکٹر جی نیکسٹ کا حکم صادر کرتے ہوئے پہلے مریض کو فارغ کر دیتے لیکن فارغ کرنے سے پہلے یہاں بھی سر سے لے کر پاؤں تک کے ٹیسٹوں کی ایک لسٹ تھمائی جاتی تاکہ مرض کی تشخیص ہو سکے۔ یہ ٹیسٹ سرکاری ہسپتال کی لیبارٹری سے ہو نہیں سکتے اس لیے ڈاکٹر مریض کا قیمتی وقت بچاتے ہوئے تجویز دیتے کہ فلاں فلاں لیبارٹری سے کروا لائے آپ یہ ٹیسٹ اور ان لیبارٹریوں سے معاملات پہلے ہی طے ہوئے ہوتے ہیں۔

لیکن سرجن پرائیویٹ ہو یا سرکاری بس سرجن ہوتا ہے لہذا آپریشن کے دوران مریض کے پیٹ میں قینچی، تولیا بھولنا تو عام بات ہے اس لیے آپریشن کے بعد مریض اپنا پیٹ ٹٹول کر خودی دیکھ لے کہ کچھ بھول تو نہیں رہے ڈاکٹر اندر۔

ڈاکٹروں کی تیسری قسم عطائی ڈاکٹر ہے جو ہر دوسرے محلے میں اپنی دکان کھولے بیٹھیں ہوتے ہیں۔ درحقیقت یہی ڈاکٹر خدمت انسانیت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ آپ کی ایک کال پر آپ کو چیک کرنے آپ کے گھر آ جاتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹروں کی نسبت اپنے مریضوں پر کم تجربے کرتے ہیں اس لیے ہر قسم کے مریض کو ایک ہی قسم کی دوائی دیتے ہیں۔ چاہیے کسی کے معدے میں درد ہے یا سر میں، کسی قسم کی کوئی کمزوری ہے یا کچھ اور۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب اپنے سب مریضوں کے لیے کم وپیش ایک ہی طرح کی دوائی تجویز کرتے ہیں۔

قابلیت ان میں اس قدر بھری ہوتی ہے بلکے کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے کہ کسی بچے کو مرض کی علامات بتا کر بھج دو کہ اماں کے گھٹنوں میں درد ہے، منی کا پیٹ خراب ہے یا باجی کو بخار ہے تو مریض کو چیک کیے بغیر صرف علامات سن کر ہی مرض کی تشخیص کر لیتے اور فورا دوائی کی تین چار پڑیاں بنا کر دے دیتے کہ صبح شام کھائے۔ ویسے یہ ڈاکٹر جیب پر اتنے بھاری نہیں پڑتے اور مریض ان کو اپنے مرض کے علاؤہ اپنے بچپن، اپنی جوانی، اپنے خاندانی بہادری کے قصے بھی فرصت سے سنا سکتا ہیں۔

ڈاکٹروں کی سب سے نرالی قسم وہ ہے جو بیمار شخص کی عیادت کے لیے آنے والے ہر شخص میں پائی جاتی ہے۔ سلیف میڈ ان ڈاکٹروں کی قسم مریض کی حالت دیکھ کر یا تو اسے سیدھا قبر میں لیٹنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ "ہائے میری خالہ کو بھی یہی بیماری تھی بیچاری کے علاج پر بہت پیسہ برباد ہوا لیکن بچ نہ سکی" تاکہ مریض ذہنی طور پر سفر آخرت پر جانے کے لیے تیار ہو جائے۔ یا پھر کوئی ایسا جادوئی نسخہ نکال کر لاتے ہیں کہ جیسے اس کے استعمال سے چارپائی سے لگا مریض پانچ منٹوں میں اٹھ کھڑا ہو گا۔ ان ڈاکٹروں کی فیس فقط چائے بسکٹ یا ایک گلاس بوتل ہوتی ہے جو وہ مریض کے سرھانے بیٹھ کر نوش فرماتے، ڈھیروں قیمتی مشورے اور نسخے جھاڑ کر روانہ ہو جاتے۔

ڈاکٹروں کی ایک عدد معصوم سی قسم مریض کے اندر بھی پائی جاتی ہے۔ جو اپنے سر درد کا علاج ایک عدد چائے کی پیالی سے، بدہضمی، سینے کی جلن، گھبراہٹ اور بلڈ پریشر کا علاج ہری بوتل سے اور باقی ہر قسم کے درد کا علاج پینا ڈول کی دو عدد گولیوں سے کر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں بیشتر والدین میں ڈاکٹروں کی یہی قسم پائی جاتی ہے۔ جو یہ سوچتے ہیں کیا دوائیوں پر پیسے لگانے وہی بچوں کی کوئی ضروری چیز آ جائے گی، گھر کا کوئی خرچ پورا ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔

یوں ہمارے ہاں مریضوں کی اکثریت اپنا علاج خودی کر لیتی ہیں۔

Check Also

Phone Hamare Janaze Nigal Gaye

By Azhar Hussain Bhatti