Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. Suhail Warraich Ki Kahani, Zia Ul Haq Naqshbandi Ki Zubani

Suhail Warraich Ki Kahani, Zia Ul Haq Naqshbandi Ki Zubani

سہیل وڑائچ کی کہانی، ضیا الحق نقشبندی کی زبانی

کہانی کا تجسس اور کہانی سننے کی خواہش ازل سے ابد تک موجود رہے گی۔ تبھی تو پیر محمد ضیا الحق نقشبندی نے "سہیل وڑائچ کی کہانی" لکھ ڈالی۔ سہیل وڑائچ اردو صحافت کا معتبر حوالہ اور جدید انٹرویو کے بانی ہیں۔ بطور سیاسی تجزیہ کار ان کا دھیما لہجہ اور سوال در سوال ممکنہ نتائج کا مدلل تحقیقی انداز لاجواب ہے۔ "ایک دن جیو کے ساتھ" سہیل وڑائچ کی منفرد شناخت ہے۔ دنیا بھر سے قابل ذکر شخصیات کی زندگی بھر کی کہانی سہیل وڑائچ کے ساتھ انتہائی دل چسپ لگتی ہے۔

گزارش احوال میں پیر ضیاءالحق نقشبندی نے اعترافی ستائش کے ذریعہ یہ کتاب لکھنے کا بھر پور جواز فراہم کیا ہے۔ سہیل وڑائچ کے تعارفی بیان میں لکھتے ہیں، "سیاسی نشیب و فراز، انتخابی سیاست، ممکنہ نتائج اور حکومت سازی کے حوالے سے ان کے پر مغز، شاندار، جاندار، کمال، لاجواب اور بے مثال تجزیے مختلف ادوار میں بہت توجہ سے پڑھے اور سراہے گئے۔ وہ سیاسی برادری، دھڑے بندیوں اور جوڑ توڑ کی سیاست کے سچے نباض اور غیر معمولی ایکسپرٹ (expert) ہیں۔ خاص طور سے پنجاب کی دیہی سیاست اور برادری کی بنیاد پر ہونے والے جوڑ توڑ کو سمجھنا، بیان کرنا ان کی متاثر کن خصوصیت ہے"۔

یہ بات درست ہے کہ سہیل وڑائچ اپنے واضع اور منفرد انداز و اسلوب کے حوالے سے پذیرائی کے مستحق ہیں۔ احساس ذمہ داری کے تمام تر تقاضے زمانہ طالب علمی سے سہیل وڑائچ کی شخصیت کا حصہ رہے۔ وہ عورتوں کے حقوق اور کام کرنے کی آزادی کے حامی ہیں۔ احساسات و جذبات کے تجربات کو لازمہ زندگی سمجھتے ہیں۔ مستقبل کے خوف سے بے نیاز، پامسٹری کو تفریح کے طور پر لینے والے سہیل وڑائچ رقیق القلب اور منکسرالمزاج ہیں۔ موجودہ دور کی سیاست کو دوسروں پر ملامت کا نام دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، "عوام نے ماضی کی خود ملامتی چھوڑ کر دوسروں کی ملامت بلکہ ہر ایک کی ملامت کا رویہ اپنا لیا ہے۔ لیڈر شپ (leadership) اگر خود پر ملامت کرے، اپنا خود احتساب کرے، جوگی اور صوفی کی طرح خود اپنا جائزہ لے، خاکساری اپنائے، تکبر اور انا کے بت توڑے تو عوام بھی اس سے متاثر ہو کر ویسا ہی رویہ اپنائیں گے"۔

بلا شبہ یہ بہترین تجزیہ ہے اور فطرت کا اصول بھی کہ پانی ہمیشہ پنسال کی طرف آتا ہے۔ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ "معاشی افراتفری کے زمانے میں ہمیشہ جوگی، درویش، ملنگ اور قلندر مقبول ہوتے ہیں"۔ جدت و روایت کے امتزاج سے گندھی شخصیت کے مالک سہیل وڑائچ کلاسیکل اور جدید موسیقی بھی موڈ کے حساب سے پسند کرتے ہیں۔ اپنی اداسی کی وجہ ہاسٹل لائف کو سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ، "اگرچہ ہاسٹل لائف سے میں نے کچھ مثبت چیزیں بھی سیکھیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ سرد مہری بھی میری زندگی کا حصہ بن گئی"۔

دور حاضر میں میڈیا کی تعریف ان کے الفاظ میں"جب سے عوامی شعور میں پختگی آنا شروع ہوئی ہے۔ میڈیا کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ ہم اب "پبلک سپوکس مین" public spokesman بن گئے ہیں۔ اب ہم واچ ڈاگ (watchdog) بھی ہیں اور حکومت کا احتساب کرتے ہیں جو دنیا بھر کا میڈیا کرتا ہے۔ مہذب دنیا میں ہر جگہ میڈیا حکومتوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے اور ان پر گرفت کرتا ہے"۔

بدقسمتی سے ہم نے میڈیا کو صرف مائیک پکڑا دیے ہیں۔ شعورو تربیت سے عاری مائیک چیختے رہتے ہیں اور عوام اس شور قیامت پر بے حسی کی چادر اوڑھے فرار پر تیار۔ پیر ضیا الحق نقشبندی کا احسان ہے کہ انھوں نے صحافتی "جن" کی شخصیت کا خوب صورت اور سادہ انداز میں تعارف کروایا۔ اس دور میں جہاں بے ہنگم چیخ و پکار کے بل پر جھوٹ اور فریب کا کاروبار پنپ رہا ہے۔ ہمیں اصل صحافت کی روح اور اس سفر کے خدوخال سمجھنے کی شدید ضرورت تھی۔ جسے ضیاء الحق نقشبندی نے پورا کیا ہے۔

انٹرویو کی صورت "سہیل وڑائچ کی کہانی" خود انھی کی زبانی ہے۔ جس میں ان کا خاندانی پس منظر سے لے کر اسرار و واقعات کا گنج نامہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ ضیاء الحق نقشبندی کی بصیرت ہے کہ انھوں نے سوالات کی ترتیب اور اسلوب کی دلکشی کے ذریعہ حالات زندگی اور مختلف واقعات کے ذریعہ نہ صرف سہیل وڑائچ کی شخصیت کا تعارف بلکہ نفسیاتی موشگافیوں کے انداز میں ان کی عادات و اطوار اور خیالات کی تمام پرتوں کو سامنے رکھا ہے۔ سیاسی واقعات کے اصل حقائق کی گرہیں کھولی ہیں۔ جمہوریت، انتخابات اور مختلف ایشوز پر آرا کو کہانی کا حصہ بنایا ہے۔

پیر ضیا الحق نقشبندی نے انٹرویو کے طویل سیشنز میں تجسس و آگہی کا خلا بھرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ آخر میں سہیل وڑائچ کے چند منتخب کالم کا انتخاب بھی ضیاء الحق نقشبندی کی بصیرت کا ثبوت ہے۔ "سہیل وڑائچ کی کہانی" کے ذیلی عنوانات متاثر کن ہیں۔ 13 سال میں کتاب کا مکمل سفر رستے کے ہر قدم کی تفصیل و تجزیہ سے بھرا ہے۔ کتاب کو پڑھ کر ضیاء الحق نقشبندی کے اس بیان سے سو فی صد اتفاق ہے۔ "اس کتاب میں آپ کو مبالغہ ملے گا نہ لفظوں کی ہیرا پھیریاں، وش فل تھنکنگ (wishful thinking) پر مبنی تجزیے ہوں گے اور نہ ہی اپنی عظمت کے جھوٹے قصے۔ البتہ ایک سینئر، گرم پاؤں اور ٹھنڈے ذہن والے صحافی کے تجربات، مشاہدات، احساسات کی ترجمانی ملے گی۔ سیاست اور صحافت پر تحقیق کرنے والوں کو کئی مستند حوالے اور ٹوٹی کڑیوں کے سرے جوڑنے کا سامان ملے گا"۔

صحافت اور تاریخ کے طالب علموں کے لیے یہ کتاب ایک تحفہ ہے۔ امید ہے وہ "سہیل وڑائچ کی کہانی" کو بطور نصاب شامل مطالعہ رکھیں گے۔

Check Also

Markhor, Vego Aur Jahaz

By Saleem Zaman