Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. Dil e Hungama Ju, Kidhar Chaliye

Dil e Hungama Ju, Kidhar Chaliye

دلِ ہنگامہ جُو، کِدهر چلیے

ایک دن ایک سیاست دان نے لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے چراغ جلایا، تو منحنی سا، تھکا ہوا جن نمودار ہوا۔ اور سیاست دان سے کچھ فاصلہ پر کھڑا رہا۔ جن کو اپنے گرو کی نصیحت یاد تھی۔ جس میں گدھے کے پیچھے اور افسر کے سامنے کھڑے ہونے سے منع کیا گیا تھا۔ پھر یہ سیاست دان تو افسروں کا بھی باپ تھا۔ سو جن نے بڑے محتاط لہجہ میں پوچھا " کیا حکم ہے میرے آقا "۔

یہ کہتے ہی جن کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ موجودہ صورت حال میں وہ کسی ایسے ویسے حکم کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ جن کو عوام کے سامنے پیش ہونا پڑا لیکن مہنگائی کی قسم دے کر جن نے ہر بار بھولی عوام کی خواہش تبدیل کروا لی تھی۔ یہ بات البتہ جن کے لیے آج بھی معما تھی، کہ آخر عوام کے پاس یہ چراغ کیسے پہنچا۔

پھر اس کے ایک دوست جن نے بتایا کہ بوڑھے جن کا چراغ اکثر عوام کے پاس چلا جاتا ہے۔ اور ہر جن فہم و دانائی کے بل پر خواہش کی تبدیلی کے ہنر سے کام لیتا ہے۔ ہر جن خواہش میں کوئی ایسا "لیکن" لگا دیتا ہے، کہ عوامی خواہشات بے دم ہو جاتی ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی سیاست دان کی، چونکہ سیاست دان گھاگ اور سیاسی داؤ پیچ کے بل پر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

اس لیے جن تھوڑا خوف زدہ تھا۔ سیاست دان نے جن سے کہا کہ اسے راجا بنا دیا جائے۔ جن نے تاج نکالا اور سیاست دان کے سر پر رکھ کر اسے راج پاٹھ سونپ دیا۔ راجا بنتے ہی سیاست دان بوکھلا گیا۔ اس کی حکومت میں پرجا کی شکایات کا انبار بڑھنے لگا۔ راجا کو بھلا کیا خبر تھی، کہ تاج سر پر رکھنے سے راج تو مل سکتا ہے، مگر وہ گن کہاں سے لائے جو حکومت سازی کا تقاضا ہے۔

لاکھ سر پٹخا لیکن جن آزاد ہوتے ہی بے فیض ہو چکا تھا۔ سو راج بکھرنے لگا۔ تب سے یہ کہاوت بنی کہ "راج مانگیو تو گن بھی ساتھ چاہیو "یہ کہاوت جنگل میں بھی پہنچی اور سب جانوروں نے فیصلہ کیا کہ کوے کے سر پر تاج کبھی مت رکھنا۔ وہ کائیں کائیں تو کرے گا لیکن گڑھا کھودنے اور دفن کرنے کے سوا اسے کوئی ہنر نہیں آتا۔ کچھ جانوروں کے لیے یہ کائیں کائیں کوک سٹوڈیو سے بڑھ کر تھی۔

وہ سب کوے کے ہم نوا رہے۔ جنگل تو جنگل ہے، اور جانوروں کا کیا بھروسہ۔ جس کے ہاتھ تاج کا ایک بھی ٹکڑا لگا۔ وہ لے بھاگا اور اپنی سلطنت قائم کر لی۔ کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ کچھ ایسی ہی صورت حال راجا کی سلطنت میں بھی پیش آئی۔ ٹوٹے دھاگے اور الجھنے لگے۔ سیاست دان راجا بن کر بہت پچھتایا کہ اس نے گن کیوں نہیں مانگے۔ بہرحال اس ایک بات میں امیر و گدا ایک ہوئے۔

غریب بھاگ نہیں مانگ سکتے تھے، اور راجا گن نہیں چھین سکتے تھے۔ یہ کہانی دنیا بھر میں پھیلی اور فیصلہ ہوا کہ ہر راجا کو راج کے داؤ پیچ لازمی آنا چاہیں۔ راجا کو ایسا بندر نہیں بننا چاہیے، جو سمجھ داری اور سخت فیصلوں کے نام پر انصاف کرتے ہوئے روٹی اور پنیر تو ایک طرف پاؤں ہی کاٹ ڈالے یا زمین کھینچ لے۔ اور عوام نہ ٹھیرا جائے اور نہ بھاگا جائے کی زندہ مثالیں بن کر برزخ بھگتنے لگے۔

ہم سب کو بھی اپنی اپنی سلطنت کے گن نہیں آتے۔ تبھی کمرہ جماعت سے لے کر امتحانی نمبروں کی تقسیم، ٹیسٹ سیشن، اوقات کار سب لولے لنگڑے راجاؤں کے ہاتھ میں ہے۔ جس کے پاس زمینی حقائق تو ہیں نہیں۔ گن مانگے بغیر ہوا کے تخت پر سوار اڑتے چلے جا رہے ہیں، اور ہر نظام کو تباہ و برباد، اساتذہ کو بد دل، طلبہ کو شعور سے عاری بنانے کے مجرم ہیں۔

کس کو کہاں بٹھانا ہے، کہاں اور کس جگہ کسی کی صلاحیتوں کا درست استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب نظر انداز کیے فیصلہ ساز کا قلم رواں ہے۔ مرغی کے انڈوں سے شروع ہونے والی کہانی میں تمام انڈے ٹوٹ چکے ہیں۔ لیکن شیخ چلی زندہ ہے۔ امید ہے کہ پٹرولیم کے بڑھتے نرخ کے ساتھ ہر خاندان کو دو ہزار فی کس کے بجائے ایک اڑن کھٹولا عطا کیا جائے گا۔

جس میں بیٹھ کر نیچے رینگنے والے تو صاف نظر آئیں گے لیکن سروں پر اڑتی قیمتی گاڑیاں بادلوں کی وجہ سے چھپی رہیں گی۔ اور تاویلات گھڑنے والے انھیں اڑن طشتریوں سے موسوم کریں گے۔ سمر کیمپ کا شوشا چھوڑنے والے بھی ایسے ہی شیخ چلی ہیں۔ جو گھی اور مصالحوں کے بغیر دیگ پکانے کا شوق رکھتے ہیں۔ وقتا"فوقتا" ایسے شوشے ہمیں " آرے" لگائے رکھتے ہیں، اور تسلی رہتی ہے کہ راجا میں گن نہیں تو کیا ہوا باقی کون سقراط ہے؟

# بنامِ امن ہیں جنگ و جدل کے منصوبے

بہ شورِ عدل، تفاوت کے کارخانے ہیں (ساحر لدھیانوی)

یہ زمینی تفاوت اب فیصلہ سازی اور انصاف کے دھاگے ادھیڑنے میں مشغول ہے۔ سمجھ سب آرہی ہے۔ دکھائی سب دے رہا ہے۔ لیکن " گن" کہاں سے لائیں۔ چھٹیوں کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بعد بندر نے پنیر اور روٹی پر قبضہ جمایا اور اپنی افسری جھاڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ بے چارے پیپلا کے نام نہاد قائدین جن کو تصاویر کے بیج چپکانے سے فرصت نہیں۔

اپنی لیڈری چمکانے میں انھیں احساس ہی نہیں کہ یا تو چھٹیوں کا نوٹیفکیشن کینسل کروائیں یا اداروں میں باقاعدہ چھٹیاں اناؤنس کی جائیں۔ میٹرک کے ابھی پریکٹیکل ختم نہیں ہوئے۔ تھکے ہوئے بچوں کے لیے یہ مختصر وقت لمحہ سکون ہوتا ہے۔ اس لوڈ شیڈنگ میں اساتذہ نے سو کام نکالے ہوتے ہیں۔ شہر بدران کے لیے یہ لمحہ مسرت ہوتا ہے۔

محترم حمزہ شہباز سے درخواست ہے، کہ پندرہ دن اس اذیت میں گزارنے کے بعد اس شدت کی گرمی میں سب کو آئن سٹائن بنانے کے بجائے تعلیمی ادارے بند کیے جانا چائییے۔ " جن" نے راج کے گن نہیں دیے تو کیا ہوا۔ یہ سیکھے جا سکتے ہیں۔ چھٹیوں کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہے، تو یہ مشق ستم کس لیے؟ اس نوٹیفکیشن سے اگر مگر کی چابی ذہنی مریضان سے دور رکھی جائے۔ ورنہ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ کچھ فیصلہ تو ہو کدھر جانا چاہیے۔

Check Also

Holocaust

By Mubashir Ali Zaidi