Rajkumari Se Wazir e Aala Punjab Tak
راجکماری سے وزیراعلیٰ پنجاب تک
مسلم لیگ ن نے پنجاب میں حکومت سازی کے لیے مطلوبہ نمبرز پورے کر لیے ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے قرعہ فال مریم نواز شریف کے نام نکل آیا ہے۔ مریم نواز شریف کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان اسی دن سے شروع ہوچکا ہے، جس دن پارٹی نے انہیں اس عہدے کے لیے منتخب کردیا۔ اطلاعات کے مطابق بیوروکریسی نے انہیں رپورٹ کرنا شروع کردیا ہے اور انہیں وزیراعلیٰ پنجاب کا پروٹوکول بھی دے دیا گیا۔
پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا یہ دور انتہائی مشکل اور چیلنجز سے بھرپور ہوگا، جس میں بیوروکریسی کی شاطر دماغی، پنجاب کی 11 کروڑ آبادی کے مسائل کا ٹوکرا، 42 اضلاع کی الگ الگ ضروریات و ترجیحات، سینکڑوں منتخب سیاسی نمائندوں کی ہوشیاریاں، 159 تحصیلوں کا پٹوار سسٹم، تھانہ کچہری، انتظامی امور، صوبائی بیوروکریسی، ضلعی پولیس افسران، ڈویژنل بیوروکریسی، ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز، تحصیلدار اور اپنی کابینہ سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے مریم نواز کو ایک نئے انداز اور نئے عزم کے ساتھ میدان میں اترنا پڑے گا۔ سیاسی عدم استحکام کے اس پرفتن دور میں کارکردگی کے جوہر دکھانا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہوگا، لیکن اب آن پڑی ہے تو کرنا تو پڑے گا۔
مریم نواز کو اپنے چچا شہباز شریف کی بہترین وزارت اعلی، پرویزالہی کے نت نئے کامیاب تجربات اور نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کی محسن سپیڈ کے تمام ریکارڈ توڑنا ہوں گے۔
پنجاب کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بننے کا اعزاز مریم نواز اپنے نام تو کررہی ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ پنجاب کی خواتین کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد یا تو پنجاب کی خواتین پر ترقی و ذمہ داریوں کے بہت سارے دروازے کھل جائیں گے یا پھر خواتین کے لیے پہلے سے کھلے بھی کئی دروازے بند ہوسکتے ہیں۔ یہ اب مریم نواز کی کارکردگی پر منحصر ہے۔ مریم نواز کے چچا شہباز شریف اپنے دن کا آغاز صبح چار بجے سے کردیتے تھے وہ اپنے ذاتی کاموں اور سویمنگ سے فارغ ہوکر عموماً 6 بجے دفتر پہنچ جایا کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود بھی بیوروکریسی کا سانس خشک رہتا ہوتا تھا کیونکہ کوئی پتا نہیں چلتا تھا کہ موصوف رات کے کسی بھی پہر کسی بھی جگہ چھاپہ مارنے پہنچ جائیں۔
صوبے سے لے کر تحصیل تک کی بیوروکریسی حتیٰ کے پنجاب بھر کے تھانوں میں موجود ایس ایچ اوز ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے تھے کہ "شہباز شریف آجائے گا"۔ وہ لمبے لمبے پلاسٹک کے بوٹ پہن کر ہر بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے سڑکوں پر دستیاب ہوتے تھے اور اس میں بغیر ضرورت کود کر کام کرنے والوں کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔ وہ لوڈشیڈنگ کے زمانے میں مینار پاکستان کے وسیع و عریض میدان میں کھلی کچہری لگا کر لوگوں کے مسائل سنتے تھے، ان کو حل کرتے تھے اور ہاتھ والا پنکھا بھی جھولتے ہوتے تھے۔ دوسرے ممالک کے ساتھ پنجاب حکومت کے معاہدے کرواکر ان منصوبوں کو اتنی تیزی سے مکمل کروا دیتے تھے کہ چین جیسے دوست ملک نے ان کا نام ہی "شہباز سپیڈ" رکھ دیا۔
نت نئے ملبوسات، ڈیزائن اور فیشن کی وجہ سے مریم نواز ہمیشہ لوگوں کی توجہ کا مرکز رہتی ہیں لیکن اب اس کام میں اتنا انہماک ضروری ہے کہ انہیں اپنے تمام فیشن ڈیزائنرز کی چھٹی کرواکر انکی جگہ کام کے بندوں کو جگہ دینا پڑے گی۔ خواتین اور مرد کی تفریق کے بغیر اب انہیں ماہرین کی اشد ضرورت ہوگی۔۔ مریم نواز بھی اب ایک خاتون نہیں بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب ہونگی جس عہدے کی اپنی کوئی صنف نہیں ہے۔ یہ عہدہ نا تو مرد ہے اور نا عورت یہ بس پنجاب کے عوام کی خدمت کی ذمہ داری کا نام ہے۔ انکے چچا نے خاکی رنگ کا ایک مخصوص لباس رکھا ہوا تھا جسے وہ پہنا کرتے تھے، اب مریم نواز کو بھی ایک نہیں تو زیادہ سے زیادہ تین چار قسم کے مخصوص لباس ہی رکھنے پڑیں گے اور انہی سے گزارہ کرنا ہوگا۔
اب انہیں"فراگامو" کے مشہور و معروف برانڈ کے جوتے چھوڑ کر دو چار قسم کے جاگر رکھنا ہونگے اور ایک عدد اپنے چچا والے لمبے بوٹ بھی تاکہ وہ ہر لمحہ اور ہر آن پنجاب کے لوگوں کی خدمت میں موجود رہ سکیں۔
سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ اب مریم نواز کو چاپلوسوں کے نرغے سے بھی نکلنا پڑے گا، انکی تصاویر بنا کر انکی خوبصورتی کی تعریفوں کے پل باندھنے والے ٹولے سے اب جان چھڑانا ہوگی۔ اب انہیں تعریف کرنے والے پاپلوسوں کی بجائے تنقید کرنے والے مخلص اور سنجیدہ لوگوں کی ضرورت ہوگی۔ پنجاب کا صوبہ ملک بھر کی سیاست کا محور و مرکز ہے، یہاں کام کرنا سب سے زیادہ مشکل کام ہے اور یہاں پر کام کرنے کے لیے خود کو مارنا پڑے گا لہذا فیصلہ اب خود کرنا ہے کہ عثمان بزدار بننا ہے یا پھر شہباز شریف۔۔
حمزہ شہباز کی بجائے مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے چننا یقیناً مسلم لیگ ن کے لیے بہت مشکل اور گھٹن فیصلہ ہے کیونکہ حمزہ شہباز دھائیوں سے سیاست میں سرگرم ہیں۔ مشرف دور کے رگڑے کھا کر وہ سیاست کے داؤ پیج سیکھ چکے ہیں۔ لیکن مریم نواز کی سیاست کا آغاز 2013 سے شروع ہوتا ہے۔ جو پہلے صرف سوشل میڈیا تک محدود رہتا ہے اور بعد میں میاں نواز شریف پر پانامہ کیس لگنے کے بعد زمینی سیاست میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
2018 کے بعد مریم نواز اپنے والد نواز شریف کو سیاسی طور بے حد متاثر کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور یہ کہا جانے لگتا ہے کہ اس عرصے میں میاں نواز شریف ہر بات اور ہر فیصلہ مریم نواز کی منشاء کے مطابق کرتے تھے۔ مسلم لیگ ن کے اندر ایک بہت بڑا مفاہمتی گروپ ہمیشہ مریم نواز سے خائف رہا اور ابھی تک ہے جو مسلم لیگ ن کو اقتدار سے ہٹائے جانے اور بقول شہباز شریف دیور میں چنوائے جانے کی وجہ مریم نواز کو سمجھتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے اندر آج بھی ایک ایسا گروہ موجود ہے جو مریم نواز کو پارٹی یا اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتا اور مریم نواز کو ن لیگ کے لیے کسی بڑی پریشانی کی وجہ سمجھتا ہے۔
اس طبقے میں بہت سارے تو ایسے لوگ بھی ہیں جو مریم نواز کے منہ پر انہیں راجکماری سے کم کے القابات نہیں دیتے ہونگے لیکن پیٹھ پیچھے مسلم لیگ ن اور طاقتور حلقوں کے درمیان تناؤ کی بڑی وجہ مریم نواز کو ہی سمجھتے ہیں۔
مریم نواز کے لیے بطور وزیراعلیٰ پنجاب طاقتور حلقوں کے ساتھ مل کر چلنا بھی بہت بڑا چیلنج ہوگا اور شاید اس کے لیے انہیں ملک احمد جیسے لوگوں کی ضرورت پڑے۔