Maqbooliat Ya Qabooliyat?
مقبولیت یا قبولیت؟
عمران خان نے اپنی چند روز کی تکلیف اور پریشانی سے بچنے کے لیے پارٹی کے ہزاروں کارکنان اور درجنوں رہنماؤں کی گرفتاری کا سودا کر لیا جو یقیناََ "گھاٹے" کا سودا ثابت ہوگا۔ جب عمران خان صاحب گرفتار ہوئے تو ان کی پارٹی کے پاس ایک راستہ پرامن احتجاج کے ساتھ آئینی و قانونی جدوجہد کا تھا جس سے یقیناََ عمران خان چند دن بعد ہی رہا ہو جاتے اور عمران خان کی مقبولیت کے سورج کی آب و تاب میں مزید کئی گنا اضافہ بھی ہو جاتا۔ بے صبری انسان سے ہمیشہ غلط فیصلے کرواتی ہے جو لمحہ بھر میں کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔
عدم اعتماد کے بعد عمران خان کے ہر فیصلے میں بے صبری اور حواس باختگی نظر آتی ہے۔ عمران خان مقبولیت کے نشے میں اتنے مست ہوگئے کہ وہ خود کو سب سے طاقت ور سمجھنے لگ گئے۔ عمران خان کی زبان سے جاری ہونے والا فرمان ساری پارٹی کے اتفاق و فیصلوں پر بھاری قرار پایا اور حرف آخر ٹھہرا۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد عمران خان اس عمل کو دل پر لے گئے اور ہر روز معرکہ حق و باطل یا فیصلہ کن جنگ سمجھتے ہوئے آر یا پار کا ذہن لیے ہی میدان میں اترے۔
انہیں یہ پختہ یقین تھا کہ وہ یہ پانچ سال ہر صورت پورے کریں گے اور اگلے پانچ سالوں کا بھی پختہ انتظام کیا جا چکا ہے۔ ان کے خلاف ہونے والی ہر سیاسی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے کبھی عمران خان کو خود سے کچھ نہیں کرنا پڑتا تھا بلکہ ان کے آگے طاقتور حلقے حفاظتی دیوار بنے کھڑے ہوتے تھے۔ اس حفاظتی دیوار کو 2028 تک ہر صورت اپنے آگے کھڑے رہنے کا عمران خان کو مکمل یقین تھا۔
عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عوام کی ہمدردی سمیٹنے میں وہ بہت حد تک کامیاب رہے اور یوں وہ مقبولیت کے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے۔ انہیں وہاں سے پاکستان کا ہر شخص (اپنی پارٹی کے اہم ترین رہنماؤں سمیت) "بونا" نظر آنے لگ گیا۔ وہ یہ بھول گئے کہ 2018 میں انہیں اقتدار محض "قبولیت" کی بنیاد پر ملا تھا ورنہ اس وقت "مقبولیت" میں نواز شریف ان سے کہیں آگے تھے۔ پوری پارٹی نے سمجھایا کہ سیاست دان کے لیے اقتدار آنے جانے والی شے ہوتی ہے لیکن ہمیں قومی اسمبلی سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ عمران خان نے کسی کی بات کو اہمیت نہ دی اور "میری پارٹی میری مرضی" کے اصول کے تحت سب کو استعفے دینے کا حکم دے دیا۔
پارٹی کی اکثریت نے کے پی اور سندھ میں اچھی بھلی چلتی حکومتوں کو نہ چھوڑنے اور اسمبلیاں نہ توڑنے کا مشورہ دیا مگر عمران خان صاحب نے وہاں بھی "میری پارٹی میری مرضی" کے تحت اسمبلیاں توڑیں اور مقبولیت کے نشے میں سب کو للکارنے کے سلسلے کو مزید تیز کر دیا۔ حکومت گرانے کو امریکی سازش، بیرونی مداخلت اور ملک سے غداری قرار دیا۔ دعویٰ کیا کہ میری حکومت امریکہ نے گرائی کیونکہ میں نے امریکہ کو absolutely not کہا تھا۔ انہوں نے سائفر کو لہرا لہرا کر عوام کو بتایا کہ پہلی دفعہ کسی حکمران نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی تھی جس کی انہیں سزا ملی ہے۔
ہماری عوام نے امریکہ مخالف بیانیے کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور یوں عمران خان کو عوامی ہمدردی سمیٹنے کا موقع آسانی سے میسر آ گیا۔ نیب کے ایک کیس میں جب عمران خان کی گرفتاری ہوئی تو عمران خان کی پارٹی نے اس پر کور کمانڈر ہاؤس جلا دیا، شہداء کی یادگاروں کی بیحرمتی کی گئی، حساس ترین مقامات کو نشانہ بنایا گیا، گاڑیاں جلائی گئیں، پلازے نذر آتش کیے گئے، ملک کے اہم ترین اور حساس ادارے کے خلاف عوام کو لاکھڑا کرنے کی کوشش کی گئی، عوام اور ان کے محافظوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ اس حد کو اس حد تک پار کرنے کی کوشش کی گئی۔
پی ٹی آئی نے مقبولیت کے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر چھلانگ لگا دی جس سے وہ شدید ترین زخمی ہو چکی ہے لیکن پھر بھی اس کی مرہم پٹی کے بعد یہ جانبر ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے عمران خان کا سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد عمران خان تو رہا ہو گئے لیکن ساری پارٹی گرفتار کروا لی ہے اور مزید یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر درجنوں اہم ترین افراد پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
جس امریکہ پر حکومت گرانے اور پی ڈی ایم کی حکومت بنوانے کا الزام تھا عمران خان اسی امریکہ سے دن رات مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے مطابق 60 سے زائد امریکی حکام نے پاکستان کی وزارت خارجہ کو عمران خان کے لیے خط لکھا ہے۔ بدنام زمانہ زلمے خلیل زاد کی پاکستان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے وہ ایک طرف پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور دفاعی اداروں پر بکواس کر رہا ہے اور دوسری طرف عمران خان کے لیے دن رات پریشانی کے عالم میں مارا مارا پھر رہا ہے۔
عمران خان امریکی کانگرس کے لوگوں سے اپنے ہی ملک کے اہم ترین اداروں کی شکایتیں لگا کر پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔ سابق امریکی مشیر نے عمران خان کے ساتھ ناروا سلوک کو پاک امریکہ تعلقات میں تناؤ کا باعث قرار دے دیا ہے۔ گویا کہ جیسے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان عمران خان کو اپنی "ریڈ لائن" قرار دیتے تھے ویسے ہی اب امریکہ عمران خان کو اپنی "ریڈ لائن" قرار دے رہا ہے۔
میں سوچ رہا تھا کہ 9 مئی سے اب تک جو کچھ عمران خان اور ان کی جماعت نے کیا ہے اگر کسی دوسری جماعت نے کیا ہوتا تو نونہالان انقلاب اس کو ملک دشمن، غدار اور میر جعفر و میر صادق قرار دے کر ملک سے بھاگنے پر مجبور کر چکے ہوتے لیکن چونکہ یہ سب کچھ عمران خان نے کیا ہے اس وجہ سے اب سکوت ہی سکوت ہے اور ان کا راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔