Baba Kuch Nahi Jaante
بابا کچھ نہیں جانتے
یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ ہر طفل مکتب یہی سمجھتا ہے کہ اس باغ کے طوطے کچھ نہیں جانتے۔ چالاکی، ہوشیاری اور سمجھداری کے تمام ابواب بس انہی پر بند ہیں۔ جنہوں نے عمریں گزار کر تجربات کا ٹوکرا اٹھا رکھا ہے وہ مکمل نابلد ہیں۔ ڈگری، ٹیکنالوجی، نئی اصطلاحات اور دور جدت کے کچھ نئے تقاضوں سے بہرہ مند نوجوان اسی زعم میں مبتلا ہے کہ یہی کل کائنات ہے۔ یہی ابتداء ہے اور یہی انتہاء ہے۔ ساری زندگیاں گزار کر تلخ و شیریں تجربات والے بابا کچھ نہیں جانتے۔ ہر بیٹا جب چلنا، پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا، بھاگنا، دوڑنا اور بولنا سیکھ جاتا ہے تو وہ پہلی ہی فرصت میں اپنے پیدا ہونے کا سبب بننے والے باپ کو ہی سمجھا رہا ہوتا ہے "بابا آپ کچھ نہیں جانتے"۔
یہ جملہ آصف علی زرداری نے حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے دھرایا اور ساتھ اس حقیقت سے پردہ بھی اٹھایا کہ یہ معاملہ صرف میرے ساتھ ہی نہیں بلکہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ سوال یہ تھا کہ بلاول بھٹو زرداری 70 سالہ بابوں کو سیاست سے نکالنے کی بات کررہا ہے تو ان کا اپنا باپ بھی تو 70 سالہ بابا ہے اس کا کیا ہوگا؟ آصف علی زرداری نے برملا اعتراف کیا کہ ان بابوں میں میرا بھی شمار ہوتا ہے لیکن کیا کریں یہ آج کے بچے یہی سمجھتے ہیں کہ بابا کچھ نہیں جانتے اور یہ بہت سمجھدار ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
آصف علی زرداری نے بلاول کو غیر تربیت یافتہ بچہ بھی قرار دے دیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ بلاول مجھ سے زیادہ پڑھا لکھا ہے، زیادہ اچھا بول لیتا ہے، سیاست میں زیادہ فعال ہے لیکن اس کے باوجود ابھی اسے تجربہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
واقفان حال اچھی طرح جانتے ہیں کی جب پی ڈی ایم کی حکومت بنائی گئی تھی تب حکومت سازی میں سب سے فعال اور فیصلہ کن کردار آصف علی زرداری نے ادا کیا تھا اور وہ صرف شہباز شریف کو وزیراعظم بنوانے کے لیے اتنی بھاگ دوڑ تو نہیں کررہے تھے۔ ان کے جو ارادے تھے اور انہیں جو یقین دھانیاں تھیں وہ بلاول کے روشن مستقبل کی تھیں۔ بلاول کو وزیراعظم دیکھنا اور اس کے راستے صاف کرنا اس وقت آصف علی زرداری کا زندگی کا سب سے بڑا خواب ہے جسے تو اپنی زندگی میں پورا ہوتے دیکھنے کے شدید خواہش مند ہیں۔ اس خواب کو حقیقت کا روپ دھارنے کا آصف علی زرداری مکمل اہتمام کرچکے تھے۔ طاقتور حلقوں اور موسمی سیاست دانوں کی محفلوں میں اگلا وزیراعظم بلاول بھٹو کو دیکھا جانے لگ گیا تھا۔ جنوبی پنجاب کے پنچھی اڑ کر پی پی کی شاخ پر آشیانے بنانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
حالات پیپلز پارٹی کے حق میں بہترین جا رہے تھے کہ بدقسمتی سے 9 مئی کا سانحہ ہوگیا۔ 9 مئی کے سانحہ نے جہاں پر پی ٹی آئی پر اقتدار کے دروازے بند کیے وہیں پر کچھ اور بھی نئے سرے سے صف بندیوں کا ماحول بن گیا۔ نئی صف بندیوں میں بلاول کے لیے بھی مقابلے کا امتحان مزید سخت ہوگیا کیونکہ 2018 میں کیے گئے تجربے کے ساتھ اس تجربے میں بھی بہت زیادہ مماثلت موجود تھی۔ بلاول کی ناتجربہ کاری، جزباتی رویہ، اصولی سیاست کا شوق اور مزاحمتی سیاست کی دوڑ نے بلاول کو وزارتِ عظمیٰ کی حقیقی دوڑ سے باہر کردیا۔
قرعہ فال شہباز شریف کی معاملہ فہمی، مفاہمتی رویے، خدمت گاری اور تابعداری کے نام نکلا۔ مسلم لیگ ن نے اس موقع پر بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بچی کچھی دوریاں بھی دور کرلیں اور نئی محبت کے سفر میں یک قالب دو جان کے مصداق بن گئی۔ محبت کی ابتداء میں وہ چیزیں بھی منوانے کا موقع مل گیا جس پر اقتدار ملنے کے باوجود بھی ڈیڈلاک برقرار تھا۔ میاں نواز شریف کے راستے میں حائل تمام رکاوٹیں بھی ہٹا دینے کا ماحول بن گیا اور اس صورتحال میں مٹی میں نمی کا شدید فائدہ اٹھاتے ہوئے شہباز شریف نے بغیر وقت ضائع کیے مفید فصل کاشت کرکے نہلے پر دھلے مار دیا۔
مسلم لیگ نئی محبت کو پروان چڑھانے میں اس قدر کامیاب ہوئی کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں سوکنوں جیسی طعنے بازی شروع ہوگئی۔ ایک دوسرے کے ماضی کے کردار پر ننگا کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں جو تاحال جاری ہیں۔
پیپلزپارٹی اس نئی محبت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اگر اس محبت کے خلاف محاذ کو پیپلزپارٹی نے ٹھنڈا نا ہونے دیا تو پیپلزپارٹی اپنی موجودہ پوزیشن سے بھی ہاتھ دھو سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے جوان اور گرم خون کے مالک چیئرمین بلاول کو یہ بات ابھی سمجھ نہیں آرہی مگر آصف علی زرداری اس بات کی نزاکت کو خوب جانتے ہیں۔
انہیں پتا ہے کہ اس محبت کی راہ میں حائل نہیں ہوا جاسکتا اور اگر زیادہ کوشش کی تو پھر سندھ کی حکومت بھی ہاتھ سے جا سکتی ہے۔۔ بقول شاعر
نہ خوشی اچھی ہے اے دل نہ ملال اچھا ہے
یار جس حال میں رکھے وہی حال اچھا ہے