Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qasim Ali Khan
  4. Mohabbat

Mohabbat

محبت

چہرہ محبت ہے، چاند محبت ہے، عطا محبت ہے، دینا محبت ہے، میٹھے بول محبت ہیں، یار محبت ہے، دوست محبت ہے، انسان محبت ہے، قربانی محبت ہے، نگاہ محبت ہے، یادیں محبت ہیں، محبت سے بڑھ کر کسی بھی دوسرے جذبے میں اِتنی طاقت نہیں جتنی محبت میں ہے سو طاقت محبت ہے۔ تعلق محبت ہے، وعدہ محبت ہے، والدین محبت ہیں، رشتے محبت ہیں، پاک سرزمین محبت ہے، گلشن محبت ہے، پھول محبت ہیں بلکہ پھولوں کی کلیاں محبت ہیں، وضو محبت ہے، سجدے محبت ہیں، محرم سے باتیں کرنا محبت ہے پھر نگاہوں کو جُھکا کر رکھنا ہی محبت کا تقاضہ ہے اور نگاہوں کا جُھکا رہنا ہی محبت ہے، موج محبت ہے، دریا محبت ہے، لہریں محبت ہیں، سمندر محبت ہے، پیغام محبت ہے، رنگ محبت ہے بلکہ نظارے محبت ہیں، منزل محبت ہے، ہوائیں محبت ہیں، نعت محبت ہے، سُر محبت ہے بلکہ محبت وہ جذبہ ہے کہ جس میں اپنی ذات کی نفی ہو جاتی ہے۔ محبت میں اپنی ذات کی نفی کا نام ہی محبت ہے اور سمندر کا دل محبت ہے، سیاہی محبت ہے، محبت وسیع باب ہے سو محبت ہی محبت ہے۔ کائنات محبت ہے بلکہ ساری کائنات ہی محبت ہے۔ محبت کے بِنا کچھ بھی نہیں۔ محبت ہی سب کچھ ہے اور محبت میں محبت کے ہونے کے لئے محبت کے پاس دو خصلتیں یا دو عناصر کا ہونا لازم ہے۔ پھر محبت بھی ہوگی اور محبت کے نظارے بھی ہونگے۔

احترام اور ایثار۔

احترام:

دراصل حال کچھ بھی نہیں ہے بلکہ حال تو جادو ہے جو بیک وقت ماضی بھی ہو رہا ہے اور مستقبل بھی ہو رہا ہے۔ حال تو صاحبِ حال کے پاس ہےجو مستقبل اور ماضی کی قید سے رِہا ہو چُکاہے۔ اُس کے پاس ماضی بھی حال ہوتا ہے اور مستقبل بھی حال ہوتا ہے اور حال ہی احترام ہے۔ خیر ہم اپنے حال کی بات کر کے محبت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم حال میں محبوب کا یا جس سے محبت ہوتی ہے اُس کا احترام کر رہے ہوتے ہیں اور حال سے ہی لطف اُٹھا رہے ہوتے ہیں۔ اچھی یادیں بنا رہے ہوتے ہیں چونکہ انسان کو اصل محبت اچھی یادوں سے ہوتی ہے۔ حال میں تو صرف لطف رکھا ہے۔ انسان کو یادوں سے محبت ہوتی ہےاور محبت سے ہی یادیں بنتی ہیں۔ انسان کے دل میں اللہ ہے اور اللہ ہی محبت ہے۔ جس کے دل میں اللہ اور اللہ کا حبیبﷺ جس قدر ہے۔ وہ شخص اُسی قدر محبت کا پیکر ہے۔ دل میں اللہ کا ہونا دل کے بڑا ہونے کی علامت ہے۔ اور اللہ محبت ہے، اللہ رحمٰن ہے پھر اللہ محبت کرنے والی ذات ہے۔ جب اللہ دل میں سما گیا تو پھر بھول جاؤ کے مجھے اِس سے محبت ہے اُس سے محبت ہے۔ محبت کو محدود مت کرو اللہ والے کو سب سے محبت ہے چونکہ اللہ والے کے پاس احترام ہے، قدر ہے۔ جیسا کہ میں نے اُوپر کہا کہ محبت وسیع باب ہے۔ اِس باب پہ جتنا لِکھا جائے کم ہے لحاظہ ہم محبت کی گھتی کو صرف سلجھانے اور محبت کے سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی فقط کوشش ہی کر سکتے ہیں۔ اور ہم کُل مِلا کے اگر محبت کی۔ م۔ تک بھی پہنچ جائیں تو بڑی بات ہے۔ چونکہ محبت پر لکھتے لکھتے محبت والوں نے، اہلِ قلم والوں نے اپنی قلمیں توڑ دی ہیں مگر پھر بھی قلم باقی ہے، سمندر باقی ہے، سیاہی باقی ہے، محبت باقی ہے۔ اِس لئے ہم صرف تیز تیز محبت کے ساتھ آپ کو لے کر چلے گے۔ جو کچھ قلم سے نِکل گیا اور کاغذ کے ٹکڑے کی زینت بن گیا وہی محبت کا اِک قطرہ ہوگا۔ اور باقی، باقی محبت کا سمندر اپنی جگہ ہی قائم رہے گا۔ تو پھر چلئے۔

انسان کو محبت ایک بار نہیں، کئی بار ہوتی ہے بلکہ بار بار محبت ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے پہلی محبت۔ پہلی محبت مجھے اپنی ماں سے ہوئی ہے جو ابھی تک اور انشا اللہ ہمیشہ قائم رہے گی، مجھے دوسری محبت بھی یاد ہےشام دیر سے میرے باپ کا گھر لوٹنا اور دِن بھر ابا کو گھر پہ ہی پانا۔ وہ آگئے تمہارے ابا، ابو آ رہے ہیں، دِن بھر ماں سے یہی سنتے سنتے اور پھر عجب سی لوری میں محبت سے اللہ اللہ سنتے سنتے آنکھ کا لگ جانا اور صبح جا کر ابا کو دیکھنا، میاں یہ محبت نہیں تو اور کیا ہے؟ حریص مت بنو، محبت کا جو حق ہے وہی ادا کرنے کی کوشش کرو، ہاں مجھے تیسری محبت بھی یاد ہے۔ جب مجھے پہلی بار آئینہ دِکھایا گیا تھا پھر میں آئینے کی ہی تلاش میں رہا حتیٰ کہ میں نے آئینے کی مخصوص جگہ کو پا لیا پھر میں رہا اور میری صورت سے مجھے محبت ہوتی گئی۔ پھر بھائی، بہنوں، اور دیگر رشتوں سے کہیں محبت ہوئی، کہیں اُلفت، کہیں مانوسیت ہوتی گئی، پھر چہروں کا سیلاب آتا رہااور محبت بڑھتی رہی، میاں محبت کے مزاج میں رُکنا کہیں بھی نہیں ہے۔ اِس دریا کو بس چلنا ہے اور اِس دریا کی موجوں کو یا تو بڑھنا ہے یا تو کم ہونا ہے چونکہ محبت کے دریا کا نام ہی اضطراب ہے، محبت میں سکوت صرف یادیں ہیں بلکہ یادوں کے سلسے بھی کبھی عروج تو کبھی زوال کی زَد میں رہتے ہیں، خیر محبت یا تو بڑھتی ہے یا کم ہوتے ہوتے مِٹ جاتی ہےمگر پھر بھی محبت کی تاثیر باقی رہتی ہے۔ جیسے سمندر سے اگر اُس کا سارا پانی لے لیا جائے تو سمندر کی نمی باقی رہے گی ایسے ہی محبت کی تاثیر باقی رہتی ہے۔ محبت کی ایک چال اور بھی ہے جو کہ بڑی انوکھی ہے یعنی محبت کا بدلنا اور وہ بھی نفرت میں اور جب یہی محبت بدلنے پہ آتی ہے تو اِس کے بدلنے کی سزا ہے۔ محبت کو شک کی گندی نالی سے گزرنا پڑتا ہےاور پھر شک کی دَلدَل ہوتی ہے اور بےچاری محبت غلاضتوں کے طوفان میں ڈوب رہی ہوتی ہےپھر کبھی نفرتوں کی آندھی شک میں ڈوبی ہوئی محبت کو کنارے پر لا کھڑا کرتی ہے۔ ایسے کنارے پر کہ جہاں سے آگے کا سفر فقط شک کی وادی ہے، شک کی سواری ہے اور تیز رفتار نفرت کا گھوڑا ہوتا ہے۔ جِس میں انتقام کی طاقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے مگر معصوم احترام کا پنچھی کہیں بہت پہلے ہی شاخ سے اُڑ چکا ہوتا ہے۔ سو معلوم ہوگیا کہ محبت میں احترام کا ہونا لازم ہےورنہ انتقام کا ہجوم محبت کے پیچھے پیچھے ہوگا اور بے نام سی محبت آگے آگے بھاگ رہی ہوگی۔ جب محبت میں سے احترام کا جذبہ نکل جاتا ہے تو۔ شرم گاہ بندے کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتی پھر بس بِستر کو گرم کرنے کی فقط ترکیبیں ہی سوجھتی رہتی ہیں۔ محبت میں احترام شرط ہے اور یہ شرط ہی محبت ہےیعنی محبت میں احترام ہی محبت ہے۔

اب ہم محبت کو ایک دوسرے رُخ پر بھی دیکھ لیتے ہیں۔ اب تک تو موٹی موٹی بات صرف چہروں اور بشر کے چہروں تک ہی ہوئی ہے۔ یاد رکھیں نہ بولنے والی مخلوق یا بے بولوں والی تخلیق سے بھی انسان کو محبت ہوتی ہے اور ایسی محبت کے اندر عجب کائنات ہوتی ہے۔ لوگوں کے لئے بے بول یا نہ سمجھنے والی آوازیں۔ بس آوازیں ہی آوازیں ہیں یا چپ چاپ سمندر ہے۔ مگرکسی کی محبت بھی ہو رہی ہوتی ہے اور محبت کا محبت سے تبادلہ بھی ہورہا ہوتا ہے۔ خیر ہم زیادہ گہرائی میں نہیں جائے گےچونکہ یہ راز و نیاز کے نغمے ہیں۔ ہاں بشر کو پتھر سے بھی محبت ہوتی ہے اور پتھر کو بشر سے بھی، انسان کو شجر سے، کنارے سے، دریا سے، موتی سے، پانی سے، بارش سے، مٹی سے، خوشبو سے، مہک سے، عِطر سے، ہواؤں سے، تخت سے، فقیری سے، درویشی سے، تنہائی سے، موج سے موجوں کی مستی سے، جزیرے سے، ریگستان سے بلکہ ریگستان کے ذروں سے، یار سے اور یار کے لباس سے، یار کے رستوں سے، یار کی گلی سے بلکہ یار کی گلی کے کتے سے، چرند پرند سے، طوطے سے، کوئیل کی سُر سے، سفر سے، رستوں سے، کعبہ سے بلکہ بیت اللہ کی ساری سرزمین سے۔ الغرض محبت انسان کو ذروں سے اور ذروں کے پیغام سے بھی ہوتی ہے۔ مگر یہ سفر انوکھے ہیں۔ آپ بس احترام کے پنچھی کو محبت و احترام سےدانہ پانی دیتے جاؤ اُس کو پالتے جاؤ ایک ایک کر کے راز کُھلتے جائیں گے۔

اب تھوڑی سی اُس محبت پہ بھی بات کر لیتے ہیں۔ جِس محبت کا جنون معاشرے میں سر چڑھ کر بولتا ہے مگر احترام یہاں بھی شرط ہے، یار کی عزت کا، اُس کے بولوں کا، اُس کے حکم کا، اُس کے اِنکار، اقرار اور منظورِ نظر کا۔ ورنہ محبت، محبت نہیں، محبت دِقت ہوگی، وبالِ جان ہوگی، لااعلاج مرض ہوگی۔ آج کی محبت جو دو فریقین کی آپس میں ہوتی ہے۔ فقط کنارے اور دریا کی لہروں کے آپس میں ایک کھیل جیسی ہوتی ہے یا پھر کشتی اور کنارے کی آنکھ مچولی جیسے ہوتی ہے۔ ایک طرف سے تو محبت عروج پر ہوتی ہے اور دوسری طرف سے محبت بس کنارے پر کھڑی ہو کر اپنی محبت کا تماشہ دیکھتی رہتی ہے۔ بس یہی محبت کی آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے۔ پھر کبھی کنارے والی محبت کنارے پر ہی دَم توڑ جاتی ہے یا پھر دریا والی محبت دریا میں ڈوب مرتی ہے اور یُو قِصہ تمام محبت کا۔ یہ سفر اتنا مختصر مگر اِتنا طویل سفر تھا کہ جو کبھی سِمٹا ہی نہیں۔ سِمٹتا بھی کیسے کنارے والی محبت دریا والی محبت کو دِلاسے بھی دیتی رہی مگر کنارے پر باقی کے نظارو ں میں بھی محو رہی۔ اِسی طرح دریا والی محبت نے کنارے پر بھی نگاہ رکھی مگر کشتی کے باقی مسافروں کے چہروں کی سُرخی بھی دیکھتی رہی اور اُن میں بھی کہیں سچی محبت کو ڈھونڈتی رہی۔ ہاں اگر سچی محبت دونوں طرف سے ہوتی، محبت کا جذبہٰ دونوں طرف سے عروج پر ہوتا تو پھر زمانہ نئے لیلیٰ مجنوں کو، نئے سسی پنوں کو، نئے شیری فرہاد کو اور نئے ہیر رانجھا کو دیکھتا۔

خیر محبت ایک ایسی جذباتی کیفیت ہے کہ جس کے حد درجہ پر پہنچ لینے کے بعد دو لوگ کبھی نہیں بھولتے چاہے بندے کی دیوانگی جیسی ہی حالت کیوں نہ بن جائے، چاہے انسان دنیا والوں کی نگاہوں میں پاگل ہی کیوں نہ بن جائے۔ ایک وہ شخص کبھی نہیں بھولتا جس سے محبت ہوتی ہے اور ایک وہ کبھی نہیں بھولتا جو محبت کی راہ میں رکاوٹ ہو، رقیب ہو یا دشمن ہو، اِن کے نام اِن کی صورتیں کبھی نہیں بھولتی۔ یاد رکھیں محبت کے مزاج میں احترام ہے اور احترام دینے کا، بھانٹنے کا، عطا کرنے کابلکہ جو باقی بچ گیا وہ بھی زُلفِ یار پہ لُٹا دینے کا نام ہی تو ہے، اور یہی محبت ہے۔ اِس کے علاہ سب باطل ہے، جھوٹ ہے، ہوس ہے، تنہائی ہے مگر تنہائی میں تنہائی نہیں جسم ہے۔

ایثار:

ایثار قربانی کا نام ہے اور وہ قربانی، قربانی کبھی نہیں ہوتی جس میں حاصل کی تمنا ہو۔ ہاں محبت کی قربانی میں ایک چھوٹی سی تمنا ضرور ہوتی ہے مگر وہ بعد میں دیکھتے ہیں۔ وہ محبت، محبت ہی نہیں ہوتی جو قربانی نہ مانگے۔ قربانی تو محبت کی شرط ہے۔ ویسے ہی زبانی کلامی دعوں سے بات نہیں بنتی، ہاں وللہُ عالم۔ وہی اپنی قدرت کو اپنے نظام کواپنے کاموں کو جانتا ہے۔ کسی کی بہت سی قربانیاں کسی رنگ میں نہیں ڈھلتی اور کسی کے عمر بھر کے سجدے بھی رائیگاں ہی جاتے ہیں تو کسی کا فقط سر کو خم کرنا ہی قبول کر لیتا ہے۔ کہیں بڑے بڑے عبادت والوں کی عبادتیں کام نہیں دِکھاتی تو کہیں دل ہی دل میں پشیمانگی کی حالت کو سُن لیتا ہے اور فَٹ سے رحمت کی چھم چھم بارش برسا دیتا ہے۔ وہ بےنیاز بادشاہ ہے۔ عرشی فیصلے اور طرح سے ہوتے ہیں چونکہ وہ اپنی حکمتوں کو جانتا ہے اِس لئے کہ وہ کائنات کا بادشاہ ہے۔ عدل کرے یا فضل کرے۔ تُو اُسکی حکمتوں تک کبھی نہیں پہنچ سکتا چونکہ یہی قائدہ ہے کہ لامحدود کبھی محدود میں سما نہیں سکتا لیکن لامحدود بڑی بار محدود کا سفر کرتا ہے۔ محبت میں ایثار ہی محبت ہے یعنی قربانی ہی محبت ہے۔ کبھی وقت کی قربانی، کبھی رستوں کی قربانی، کبھی نیند تو کبھی جاگے رہنے کی قربانی، کبھی چُپ کی قربانی تو کبھی سچ کو چھپانے کی قربانی، کبھی راہوں کی دشواریوں کی قربانی تو کبھی منزل کی قربانی، ہاں کبھی اپنوں کی اپنائیت کی قربانی، الغرض مختلف صورتوں اور مختلف حالات میں بس قربانی ہی قربانی ہے۔ محبت کو قربانی اسلئے درکار ہوتی ہے کہ یار کا رنگ دیکھا جائے کہیں کچے دھاگوں سے بنی مالہ تو نہیں ہے، کہیں یار اپنی بات سے، اپنے وعدے سے مکرنے والا تو نہیں ہے، کہیں یار کی نگاہ میں دھول تو نہیں ہے، کہیں یار کی وفا میں بےوفائی تو نہیں چُھپی۔ قربانی محبت کی تسکین کے لئے ہوتی ہے۔ قربانی یا ایثار محبت کو مزید پکا کرنے اور محبت کے بڑھنے کے لئے ہوتی ہے۔ چونکہ جب ایک چہرے کو دوسرے چہرے سے محبت ہوتی ہے تو وہ کہیں سے بھی لمبے راستے کو، دشواریوں کی راہوں کوطے کرنے کی ہر ممکن صورت بنا لیتا ہے۔ کہیں راتوں کو اُٹھ کراُٹھ کر محبوب کے دروازے تک جانا، اُس کی گلیوں میں جانا، کبھی قائدے کو ہی بدل دینا یعنی نفی کو جمع کہنا اور ہاں کو نا کہنا یہ سب اِس لئے کہ ایک ہی چھوٹی سی مگر بہت بڑی تمنا ہوتی ہے۔ بس کسی بہانے سے یار کا دیدار ہوجائے، اُسکی کی خیریت معلوم ہوجائے۔ اِس ایک تمنا کے لئے ہزاروں تمنائیں قربان کی جاتی ہیں یہی سچی محبت کا اصول ہے کہ یار کی صورت پہ سب ایثار کر دینا ہی محبت ہے۔ سب قربان کر دینا ہی محبت ہے بلکہ جو بچ گیا وہ بھی زُلفِ یار پہ لُٹا دینا ہی ایثار ہے، محبت ہے بلکہ یہی اصل محبت ہے۔ اِس ایثار کے آخری جذبے کا نام ہی محبت ہے۔ اور ہاں جس کی جسقدر محبت سچی ہوگی، بڑی ہوگی، اُسے اُسی قدر بڑی قربانی دینی پڑے گی مگر قربانی ضرور دینی پڑے گی اِس کے سِوا چارا نہیں ہے، اِس کے سِوا محبت کو تسکین نہیں ملتی بلکہ اِس شرط کے پرے یا اِس شرط کے سِوا محبت۔ محبت نہیں محبت ڈھونگ ہے محبت دھوکہ ہے، سو فقط آنکھیں ہی نہیں دل کی آنکھیں بھی کھلی رکھنا۔ جیسے جنت کتنا بڑا مقام ہے مگر جنت کی تمنا کے لئے، جنت کے حاصل کے لئے مرنا شرط ہے اور یہ مرنا ہی جنت کی قربانی ہے۔ اللہ ہمیں محبت کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق بخشے اور محبت کی قدر کرنے اور محبت کا احترام کرنے کی توفیق بخشے چونکہ محبت کا اگر احترام آگیا تو ایثار مشکل نہیں ہے۔ اللہ ہمیں اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی محبت نصیب فرمائے۔ آمین۔

Check Also

Hum Wohi Purane Lutere Hain

By Muhammad Salahuddin