Wednesday, 16 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Professor Inam Ul Haq
  4. Jamea Kashmir Aur Almi Ranking 2025

Jamea Kashmir Aur Almi Ranking 2025

جامعہ کشمیر اور عالمی رینکنگ 2025ء

جناب پروفیسر ڈاکٹر امتیاز اعوان کی ایک سوشیل میڈیا پوسٹ نظر سے گزری، جس کے مطابق آزاد جموں و کشمیر کی صف اوّل کی جامعہ، یونیورسٹی آف آزاد جموں وکشمیر مظفر آباد، نے جامعات کی عالمی رینکنگ 2025ء میں ایک بار پھر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ عالمی درجہ بندی کے مطابق جامعہ کشمیر ملک بھر کی جامعات میں سر فہرست جبکہ عالمی درجہ بندی میں آزاد کشمیر کی جامعات میں پہلی پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

یہ امر نہایت ہی خوش آئند ہے۔ جامعہ کشمیر، خطہ کشمیر کا ایک چہرہ ہے۔ ہم اس خوشی کے پُر مسرت موقع پر جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد کلیم عباسی، وائس چانسلر، رئیسِ جامعہ، پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ قریشی، رجسٹرار، پروفیسر ڈاکٹر سعادت حسین ڈار، ڈائریکٹر QEC، ڈاکٹر شاہدہ خلیق، ڈپٹی ڈائریکٹر QEC، ہمارے استاد محترم جناب پروفیسر ڈاکٹر ندیم حیدر بخاری، پروفیسر ڈاکٹر واجد عزیز لون، و جملہ ڈین صاحبان، پرنسپل آفیسران، جملہ اساتذہ کرام، ایڈمنسٹریشن سٹاف، جس، جس نے اس شاندار کامیابی میں کردار ادا کیا، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

آزاد کشمیر کی قیادت جناب چوہدری انوار الحق، وزیر اعظم، جناب لطیف اکبر، قائم مقام صدرِ ریاست، جناب وزیر تعلیم، اور جملہ اربابِ اختیار کا بوساطت میڈیا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے جامعہ کشمیر کی مالی معاونت فرمائی، یہ جناب انوار الحق کا بڑا تاریخی کارنامہ ہے، جو یقینا ہزاروں طلباء و طالبات کے مستقبل کو تابناک بنانے میں سنگ میل ثابت ہوگا کیوں کہ سوشیل میڈیا پر یہ دھوم کہ کشمیر کی یونیورسٹیاں کسی بھی وقت بند ہو جائیں گی، نے کئی والدین کو پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بچو ں کو داخلہ جات پر مجبور کیا ہے، حالانکہ اس ادارے سے لاکھوں طالبعلموں کا مستقبل وابستہ ہے۔

وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جن کے ادارے مضبوط ہوتے ہیں اور پھر یونیورسٹی تو ریاست کا سافٹ فیس ہے اس کی مضبوطی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تقریباً آٹھ سال ادھر کی بات ہے کہ جامعہ کشمیر سے تعلق منقطع ہوا، ہم ان افراد کو جانتے تک نہیں نہ ہی کبھی ملاقات ہوئی، مگر سوشیل میڈیا کے توسط سے ہی علم میں آئی چیزیں قرطاسِ قلم کئے جاتے ہیں۔

جامعہ کی ملازمین تنظیم کی صدر محترمہ نازنین حبیب کو سلام پیش کرتے ہیں جو ایک خاتون ہو کر ادارے کی مضبوطی کے لیے مثالی کردار ادا کیا، ایڈمنسٹریشن کی تنظیم کے جملہ ممبران بھی ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں۔ یہ ادارہ ہم سب کا ہے خطہ کشمیر کی پہچان ہے۔

تعلیم کا اعلی معیار بلا شبہ معاشرے کی خوشحالی اور امن و امان کو براہ راست طریقے سے متاثر کرتا ہے۔ سرعت سے ترقی و تبدیلیوں کے دور سے گزرنے والی ہماری اس دُنیا میں تعلیم و تربیت کرنے والے اداروں کی اہمیت قدرے زیادہ ہے۔ تعلیم کا مقصد انسانوں کو زیادہ مثبت اور معاشرے کے لئے فائدہ مند بننے کے لئے ان کی تربیت کرنا اور اپنے مستقبل کا بذات خود تعین کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔

جامعہ کشمیر ایک قابل تقلید ادارہ ہے۔ جس کے اساتذہ کے کئی تحقیقی پیپرز شائع ہوچکے، کئی طلباء و طالبات پاکستان ہی نہیں، عالمی سطح پر ایورڈ جیت چکے۔ جامعہ کشمیر وہ ادارہ ہے جس کے اساتذہ کرام تحقیقی دُنیا میں اپنا نام بنا چکے پروفیسر ڈاکٹر عتیق الرحمن کے کالمز بھی پڑھنے کو ملتے جو قابلِ قدر ہیں۔

جامعہ کے انتظامی ملازمین بھی اس میدان میں پیچھے نہیں، وہ جامعہ کا نام روشن کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے جن میں قابلِ ذکر جناب سردار ظفر اقبال جن کی بطورِ سٹیج سیکرٹری تقاریر، اصلاحی کالمز اپنی مثال آپ ہیں، اس کے علاوہ جناب سید مبشر نقوی، پبلک ریلپشز آفیسر، جنہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پروفیشنل صحافی ہونے کا اعزاز حاصل ہے، عابد ضمیر ہاشمی جن کی کتاب مقصدِ حیات، (تحقیق کی دُنیا) جس پر جناب قاسم شاہ جیسے شخصیات نے جاندار تبصرے کئے اور پھر، بین الاقوامی معیار کی جامعہ، علامہ اقبال یونیورسٹی سمیت کئی دیگر جامعات نے اسے اپنے تحقیق کے طالب علموں کی سہولت کے لئے اپنی ویب سائٹس پر ڈال رکھا ہے اس کتاب پر انہیں پاکستان سے قومی ایورڈ بھی مل چکا، ایسے قابلِ ذکر افراد بھی جامعہ کشمیر کا حصہ ہیں۔ ایسے جملہ اساتذہ، سٹاف خطہ کشمیر اور پھر جامعہ کی نیک نامی کا سبب ہیں۔ ایسے اور کئی کردار ہیں جو جامعہ کشمیر کا حصہ ہیں اگر انتظامی سٹاف کی اتنی اچھی کارکردگی ہے تو وہاں جامعہ کشمیر کے معیار کو کالم میں کیسے سمایا جاسکتا؟ جامعات کشمیر کا اثاثہ ہیں۔

جامعات قومی معاملات چلانے، نئی ایجادات، نئے فکری زاویے، قوانین اور انتظامی مہارتیں عطاء کرنے والے اذہان پیدا کرتی ہیں۔ انجینئرنگ، میڈیکل، آئی ٹی، فلسفہ، قانون، سماجیات، علاقائی ثقافتیں اور سیاسی نظام کے شعبوں میں تحقیق کے ذریعے جدید نظریات اور ایجادات کی روشنی میں سماجی مسائل کے نئے یا متبادل حل پیش کرنا یونیورسٹیوں کا کا م ہے۔ بظاہر ہماری جامعات ان تما م شعبوں میں انقلابی نتائج دینے میں ناکام رہی ہیں مگر در حقیقت جامعہ کشمیر کو دیکھیں تو اُمید کی کرن نظر آتی ہے۔

آزاد کشمیر کی بڑھتی یونیورسٹیاں اگر اب تک کوئی قابلِ قدر کار کردگی دکھانے سے قاصر رہی ہیں تو ہماری دانست میں منجملہ مختلف اسباب کے، اس کا سب سے بڑا سبب ہمارا غیر معیاری نظامِ تعلیم ہے۔ سرکاری اسکولوں کا تو ذکر ہی کیا، چند ایک استثنائی پرائیوٹ اسکولوں کو چھوڑ کر باقی ماندہ پرائیوٹ اسکولوں سے پڑھ کر آنے والے بھی اس صلاحیت کے حامل نہیں ہوپاتے کہ یونیورسٹی کی سطح کے طالبِ علم بننے کا خود کو اہل ثابت کر سکیں۔

یہی طالبِ علم فارغ التحصیل ہونے کے بعد پھر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تدریس کا فرض سر انجام دیتے ہیں۔ اُن کی دیرینہ کمزوریاں لامحالہ طور پر اُن کی تدریس کے معیار پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند عشروں میں ہمارے کالج، اسکولوں کی کوئی ترقی یافتہ شکل بن گئے ہیں جبکہ یونیورسٹیاں، کالجوں کی توسیع شدہ شکل اختیار کر گئی ہیں۔ یونیورسٹیوں کے قیام کے پیچھے اب نسلی اور علاقائی عوامل بھی کار فرما ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ آزادکشمیر میں جامعات کے اضافہ کے بجائے جو موجود ہیں، ان کی سر پرستی فرمائی جائے، تاکہ معیارِ تعلیم پر سمجھوتہ نہ ہو۔

Check Also

Qawaneen Ki Be Ja Bharmar

By Dr. Ijaz Ahmad