Allama Iqbal Qaumi Award 2024 Aur Wadi e Kashmir
علامہ اقبال قومی ایورڈ 2024ء اور وادی کشمیر
سوشیل میڈیا کا درست استعمال یقینی بنایا جائے تو یہ ایک نعمت بھی ہے۔ کل فرصت کے لمحات میں یوٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا، جس میں علامہ اقبالؒ قومی ایورڈ 2024ء کے لئے منتخب ہونے والوں کی ڈاکومنٹری دیکھی، جس کی تفصیل محترم ڈاکٹر محمود علی انجم، نائب مرکزی صدر "بزم فکر اقبال"، بانی و صدر "بزم علم و عرفان"، بانی و صدر "ایجوکیٹرز اینڈ لرنرز آرگنائزیشن پاکستان" بتا رہے ہیں۔
ہزاروں افراد میں سے 39 افراد کو مختلف میڈلزکے لئے نامزد کیا گیا۔ گولڈ میڈلز کے لئے مکمل طور پر میرٹ کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا، جو یقیناً خوش آئند ہے، اس کا کریڈٹ جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد قمر اقبال، پروفیسر ڈاکٹر محمود علی انجم اور ان کی جملہ ٹیم کو جاتا ہے۔ جب ہر طرف انتشار و افراتفری کا ماحول ہو، ایسے میں اہلِ قلم کی حوصلہ افزائی اور ان کی کارکردگی پر میڈلز، شلیڈز، اعزازت سے نوازا جانا قابلِ تحسین ہے۔ دینِ اسلام میں بھی اچھائی کی ترویج کے لئے حوصلہ افزائی کا طریقہ کار موجود ہے۔
ہمارے لئے باعثِ مسرت یہ امر ہے کہ خطہ کشمیر جو کہ امن و سلامتی، اخلاص و محبت، خلوص کا گہوارہ ہے، یہاں کہ تین خوش نصیب افراد کو بھی علامہ اقبالؒ ایورڈ 2024ء گولڈ میڈل کے لئے منتخب کیا گیا ہے ان کی تفصیل بذیل ہے: پروفیسر ڈاکٹر غلام حسن بٹ کشمیری اَدب ایورڈ، کمالِ فن گولڈ میڈل، پروفیسر ڈاکٹر حافظ حفیظ الرحمن بغدادی (یہ لاہور میں مقیم ہیں، ان کا خاندان کشمیر سے تعلق رکھتا ہے)، اعجاز الرحمن (جائے پیدائش وادیِ نیلم، آزاد کشمیر، سکونت: مانسہرہ) دانائے راز ایورڈ، علامہ اقبالؒ گولڈ میڈل اور نوجوان مصنف عابد ضمیر ہاشمی، جن کا تعلق جناب سردار عتیق احمد خان، صدر مسلم کانفرنس و سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر کے حلقہ، دھیرکوٹ، ضلع باغ سے ہے، انہیں یونیک اَدب ایورڈ، خدمتِ اَدب گولڈ میڈل 2024ء کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔
کشمیری قوم نے ہمیشہ اپنی ریاست کا نام روشن کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا، آزاد حکومت کو اگر ہڑتالوں، افراتفری سے فرصت ملے تو ایسے افراد جن کا تعلق وادی کشمیر سے ہے اور انہیں میرٹ پر علامہ اقبالؒ قومی ایورڈ 2024ء کے لئے منتخب کیا گیا، خطہ کا نام روشن کرنے پر ان جملہ افراد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
وادی کشمیر میں بہت اعلیٰ معیارکے شعراء کرام، ادباء، مصنفین کی تعداد موجود ہے لیکن حکومتی یاا پرائیوٹ سطح پر بھی کوئی ایسا پلیٹ فورم موجود نہیں جو ان افراد کی علمی کاوشوں پر ان کی حوصلہ افزائی فرمائے۔
ایوارڈ چاہے سرکاری ہو یا غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے دیا جائے، کسی ایوارڈ کا مقصد ہوتا ہے ادیب یا فنکار کی پذیرائی اور اس کی خدمات کا اعتراف کرنا۔ ایوارڈ، اعزازات اور انعامات کسی ادیب کو مزید معیاری اَدب تخلیق کرنے ترغیب دیتے ہیں اگر وہ واقعی مستحق ادیب کو دیا جائے۔
اس وقت ہمیں اگر اپنے ملک و ریاست کو سوشل میڈیا کی منفی یلغار سے بچانا ہے تو اس کے لئے علم و اَدب کو فروغ دینا ہوگا۔ اَدب معاشرے کی تہذیب وترقی کے لئے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ زندگی اور معاشرے کو ساکت و جامد نہیں ہونے دیتا، خود متحرک رہتا ہے اور افراد میں تحرک پیدا کرتا رہتا ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو قدیم یونانی، مصری، اطالوی، فرانسیسی اور عرب معاشروں میں تبدیلی کا یہ عمل جاری و ساری رہاہے۔ ہمارے یہاں اُردُو اَدب میں اور یہاں کی قومی زبانوں میں بھی ہماری تہذیب اور معاشرت پر بھی وقت اور زمانے کے ساتھ ساتھ شعراء و ادباء کے یہاں بدلتے رویوں اور رُجحانات کے واضح اثرات مرتب ہوئے جنہیں ہم نے بعد ازاں تحریکوں کا نام دیا۔ یہاں کے ادباء اور شعراء اپنی شاعری اور اَدب میں یہاں کے لوگوں کی تہذیب کے لئے مختلف اوقات میں مختلف اصناف میں اس امرکا اظہار کرتے رہے ہیں کہ انسانی سفر کے ارتقاء میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں۔
سرسید کی عقلی تحریک، شاعرِ رومان اخترشیرانی کی رومانی تحریک، بعض حقیقت پسند ادیبوں کی جانب سے چلائی جانی والی حقیقت نگاری کی تحریک، محمدحسن عسکری کی احساسی تحریک، اسلامی فکر و تفہیم سے وابستہ اسلامی اَدب کی تحریک یہ سب وہ تحریکیں ہیں جن کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے نثری و شعری ادب نیز دیگر علوم و فنون پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور لازمی طور پر اَدب کے توسط سے ہماری معاشرت متاثر ہوئی اور فرد معاشرے کا جزو لاینفک ہونے کے سبب اس سے گہرے طور پر متاثر ہوا۔
ہمارے لکھنے والوں نے مثبت قدروں کو پیشِ نظر رکھا اور لکھتے ہوئے اپنے خیالات، اپنی سوچ، اپنے رویوں کو معاشرے کے دوسرے افراد پر تھوپنے کے بجائے انسان دوست اور عالمگیر رنگا رنگی کو سچائی، انصاف اور حقیقت کا روپ دے کر پیش کیا۔ یہ بتایا کہ فطرت کے لاتعداد رنگ ہماری دُنیا کاحسن ہیں، یہ انسانی حسن میں اضافے کا سبب ہیں۔ اس رنگا رنگی، کا ایک منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی ارتقاء پذیر رہتی ہے۔ ہمارے رہن سہن، طور اطوار، لباس، علوم و فنون اور تجارتی اور معاشی لائحہ عمل میں تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔ لہٰذا ان تبدیلیوں کا احساس بھی اَدب اور شاعری کے ذریعے گہرے طور پر ہوتا رہتا ہے۔ ان سب سچائیوں سے ہمیں شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے آگاہ کیا ہے۔ حقیقت، سچ تک رسائی کا راستہ، بنیادی وظیفہ، معاشرے کی فکری رفوگری۔
ترقی پسند ادیب ہی ہیں، جو آج بھی پاکستانی و کشمیری معاشرے کے حقیقی مسائل اور تضادات اپنی تحریروں میں اجاگر کر رہے ہیں۔ میں یہ بھی عرض کروں کہ ادیب، مصنف، شاعرکسی ایک گھر، خاندان کا نہیں ہوتا، بلکہ وہ ریاست کی پہچان ہوا کرتا ہے۔ ایسے افراد کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، یہی نوائے وقت ہے۔
میں جملہ انعام یافتگان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ اتنی قابل قدر کاوش پر حکومت آزاد کشمیر ان کی حوصلہ افزائی فرمائے گی۔