1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Selab Kahani, Mera Gudda

Selab Kahani, Mera Gudda

سیلاب کہانی، میرا گڈّا

"بی بی۔۔ کیا ہوا ہے بچے کو؟" ڈاکٹر اریبہ ایک نظر ساتھ بیٹھی عورت کو دیکھا دوسری نظر گندے سے کپڑے میں لپٹے ننھے سے وجود پر ڈالی جس کو اس عورت نے اب تک سینے سے لگایا ہوا تھا۔ اور ہر تھوڑی تھوڑی دیر میں میراگڈّا۔۔ میرا گڈّا۔۔ کہہ کر پچکار رہی تھی۔۔

عورت سر جھکائے بیٹھی تھی۔ ڈاکٹر اریبہ نے حیرت سے اس کو دیکھا اور کہا "اس کو دکھائیں اور مسئلہ بتائیں"، عورت نے بچے کو ڈاکٹر اریبہ کے سامنے لٹا دیا۔

ڈاکٹر اریبہ چیختی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔ کرسی پیچھے جا گری "یہ۔۔ یہ کیا ہے؟"

ڈاکٹر اریبہ کی میز پر کپڑے کا بنا ایک گڈّا گندی سے چادر میں لپٹا پڑا تھا۔ عورت نے لپک کر اپنا "بچہ" اٹھایا اور سینے سے لگا کر کھڑی ہوگئی۔ پھر سے بولنے لگی۔ میرا گڈّا۔۔ میرا گڈّا۔۔

"یہ۔۔ یہ کیا بد تمیزی ہے؟" ڈاکٹر اریبہ اب بھی چیخ رہی تھی۔

کچھ لوگ بھاگتے ہوئے آئے اور صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرنے۔ اب وہ عورت اپنا "بچہ" سینے سے لگائے کھڑی تھی۔

ایک ضعیف شخص کہیں سے نمودار ہوا اور بولا "معافی۔۔ ڈاکٹر صیب۔۔ معافی۔۔ کملی ہے۔۔ جھلی ہے۔۔ "

وہ اس عورت کو بچوں کی طرح چمکارنے لگا "زلیخا۔۔ آ جا پتر۔۔ اپنے خیمہ چلیں۔۔ ابھی وہاں ایک اور ڈاکٹر آئے گی۔۔ اس کو دکھانا۔۔ آجا میرا پتر۔۔ "

عورت ضعیف آدمی کو دیکھ کر منہ بسور تے ہوئے بولی۔ " میرا گڈّا۔۔ میرا گڈّا۔۔ میرا گڈّا۔۔ "، ضعیف آدمی بدستور بڑے پیار سے اس کو سمجھاتا ہوا وہاں سے لے گیا۔

ڈاکٹر اریبہ کی کرسی سیدھی کر دی گئی۔ مریضوں کا ہجوم پھر سے قطار بنانے لگا اور طبی امداد کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوا جہاں سے ٹوٹا تھا مگر ڈاکٹر اریبہ کو دل دماغ اب بھی قابو میں نہیں تھا۔

"یہ عورت کپڑے کے غلیظ پتلے کو کیوں اپنا بچہ سمجھ کر سینے سے لگائے گھوم رہی ہے؟ کوئی پاگل ہوگی۔۔ "، ڈاکٹر اریبہ نے سر جھٹکا اور کام میں مشغول ہوگئی۔

وہ ایک موبائل اسپتال کے ساتھ اس کیمپ میں سیلاب متاثرین کی داد رسی کرنے آئی تھی۔ وہ ایک درد مند دل رکھتی تھی۔ اپنے جیسے ہی چند ڈاکٹرز کے ساتھ مل کر اس نے یہ موبائل اسپتال بنایا تھا تاکہ ان کیمپوں میں جاکر غریبوں کی کچھ تو اشک شوئی کر سکے۔

ایک چھوٹا سا خیمہ بطور کلینک استعمال ہو رہا تھا۔ جہاں ڈاکٹر اریبہ عورتوں اور بچوں کا معائنہ کرکے ان کے لئے دوا تجویز کر رہی تھی اور دو نرسیں دوا کی پڑیا بنا کر مریضوں کو دے رہے تھے۔ خیمے کے باہر ایک لمبی قطار موجود تھی۔

مریضوں کی تعداد بہت تھی اور معالج کم۔۔ ایسے میں سب کی کوشش ہوتی تھی کہ کلینک کا ٹائم ختم ہونے سے پہلے دوا حاصل کرلیں۔

یہاں صورت حال بے حد خراب تھی۔ ہر دوسرا بچہ ڈائریا اور کولرا کا شکار تھا۔ ڈینگی بھی تیزی سے پھیل رہا تھا۔ حاملہ عورتیں الگ توجہ کی طالب تھیں۔۔ وسائل کم اور مسائل بہت تھے۔

شام تک ڈاکٹر اریبہ کا تھکن سے برا حال ہو چکا تھا۔ مگر وہ پتلے کی" ماں" اب تک ڈاکٹر اریبہ تک ذہن سے چپکی ہوئی تھی۔ وہ اس کے بارے میں جانے بغیر جانا نہیں چاہتی تھی۔

اس نے نرس کو کیمپ سے اس عورت کے بابا کو ڈھونڈنے بھیجا۔ کچھ ہی دیر بعد ضعیف شخص دل گرفتہ حالت میں سامنے بیٹھاتھا۔

"کیا نام ہے تمہاری بیٹی کا؟" ڈاکٹر اریبہ نے پوچھا۔

" زلیخا۔۔ زلیخا نام ہے اس پگلی کا۔۔ "

"کیا وہ شروع سے ایسی ہے؟"

"نہیں نہیں ڈاکٹر صیب۔۔ چنگی بھلی تھی میری بیٹی۔۔ پھراپنے بچے کے غم میں ایسی ہوگئی۔۔ "

"کیا ہوا تھا اس کے بچے کو؟" ڈاکٹر اریبہ نے پوچھا

معمر شخص نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور کہا "اس کے بچے کو سیلاب ہوگیا تھا۔۔ "

ڈاکٹر اریبہ حیرت سے بولی "کیامطلب۔۔ سیلاب ہو گیا تھا؟"

معمر شخص زہر خند لہجے میں ہنسا"ہاں ڈاکٹر صیب۔۔ یہ سیلاب۔۔ یہ زلزلہ یہ سب ہمارے لئے روگ ہیں۔۔ اور یہ ہمیں بار بار لگتے ہیں۔۔ زندگی بھر لگتے رہتے ہیں۔۔ دس سال پہلے بھی سیلاب آیا تھا۔۔ یہ سب ایسے ہی ہوا تھا۔۔ ایسی ہی تباہی ہوئی تھی۔۔ ایسے ہی مال مویشی بہا تھا۔۔ ایسا ہی کیمپ تھا۔۔ سب ایسا ہی تھا۔۔ "

***

زلیخا کل رات سے دردِ زہ میں مبتلا تھی۔ سب کو معلوم تھا کہ اس کا وقت قریب ہے۔ مگر یہ وقت ایک کیمپ میں بے سرو سامانی کی حالت میں آئے گا۔۔ یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ یہ زلیخا اور دین محمد کی پہلی اولاد تھی۔ شادی کے چار سال بعد جب اللہ نے امید لگائی تو خوشی سے زلیخا کا روم روم جھوم اٹھا تھا۔

دین محمد نے تو زلیخا کو ہاتھ کا چھالا بنا لیا تھا۔ اپنی گنجائش سے بڑھ کر اس کا خیال رکھتا۔ کہتا تھا "میرا بچہ خوب صحت مند ہونا چاہئے۔۔ گورا چٹا۔۔ تیرے جیسا۔۔ "، اور زلیخا شرما سی جاتی۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔

اس نے اپنے نو ماہ کے حمل کا ہر لمحہ جیا۔۔ ہر تکلیف اسے اس بات کا احساس دلاتی کہ اس کا بچہ زندہ ہے۔۔ ہر درد ہر ٹیس پر شکر ادا کرتی۔۔ ذرا جو آہٹ کم ہوتی تو گھبرا کر اٹھ بیٹھتی۔۔

دین محمد تسلی دیتا۔ "سب خیر ہوگی۔۔ "

ننھے ننھے کئی کپڑے تھے جو اس نے چار سال میں جمع کر لئے تھے۔۔ کئی نام تھے جو دونوں کے ذہن چار سال سے جمع کر رہے تھے۔

وہ کہتی "اب تو وقت قریب ہے۔۔ دین محمد! یہ نجانے کس پر گیا ہوگا؟ اس کی آنکھیں۔۔ اس کی ناک۔۔ اس کا ماتھا۔۔ نہ جانے تمہارے جیسا ہوگا یا میرے جیسا؟"

پھر ملک بھر میں بارشوں کا آغاز ہوا۔ پہلے تو سب ہی مطمئن تھے کہ جانتے تھے یہ مون سون کی بارشیں ہیں اور معمول کی بات ہیں۔ مگر جب کئی کئی دن تک بارشوں کا سلسلہ جاری رہنے لگا۔ نشیبی علاقے زیر آب آنے لگے۔ اب لوگوں میں فکر مندی بڑھنے لگی۔ جلد ہی علاقہ خالی کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔

دین محمد اور زلیخا عام لوگوں سے زیادہ پریشان تھے۔

"دین محمد اب کیا ہوگا؟" ہمارا تو کوئی رشتہ دار بھی کہیں اور نہیں رہتا کہ وہاں چلے جائیں۔۔ "

"تو فکر نہ کر۔۔ سنا ہے وہاں خیمہ بستی لگا دی ہے حکومت نے۔۔ وہاں ڈاکٹر بھی تو ہو گی ناں۔۔ "

دین محمد کا لہجہ کھوکھلا تھا۔ لیکن یہ سچ تھا وہاں ڈاکٹر تھی۔ ڈاکٹر شیبا ایک بڑے اسپتال کی گائنی ڈاکٹر تھی۔

"واٹ۔۔ میں۔۔ میں وہاں کیمپ میں جا کر عورتوں کی ڈلیوری کرؤاں گی؟"

ڈاکٹر شیبا نے تو کبھی اپنے اسپتال پرائیوٹ اسپتال کے علاوہ کسی کو ہاتھ نہ لگایا تھا۔ گورنمنٹ اسپتال میں تو وہ ماسک لگا کر لیبر روم کا پانچ منٹ پر محیط دورہ کرتی تھی۔ باقی ڈلیوری کا کام تو نرسیں ہی کرتی تھیں۔ ہاں اپنے پرائیوٹ کلینک پر ہر مریض اس کی انفرادی توجہ کا حق دار بنتا تھا۔

مگر اب تو اس کو سیلاب کیمپ میں موجود حاملہ خواتین کے درمیان بھیجا دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر شیبا سخت کوفت کا شکار تھی۔

"یہ یقیناً اس ایم ایس کی حرکت ہے۔۔ اسی نے میرا نام بھیجا ہوگا۔۔ "

وہ جانتی تھی کہ ہسپتال میں گائنی وارڈ کی ایم ایس اس کے بڑی پر خاش رکھتی تھی۔ ڈاکٹر شیبا تلملا کر رہ گئی۔ مگر بے بس تھی۔۔ کچھ کرنا اس کے بس میں نہ تھا۔ چارو نا چار اس کو جانا پڑا۔

"چلو۔۔ یہ دو نرسیں تو ہیں نا۔۔ یہ کر یں گی سب کچھ۔۔ "، اس نے سوچ لیا تھا۔

موبائل اسپتال کیمپ تک پہنچا۔ ڈاکٹر شیبا اپنی شاندار کار سے اتری۔ دین محمد سمیت کئی لوگ اس کیمپ سے کچھ فاصلے پر موجود تھے۔ ڈاکٹر شیبا کو دیکھ کر ان کے چہروں پر اطمینان جھلکنے لگا

"بڑی ڈاکٹر ہے۔۔ یہ ضرور مدد کرے گی۔۔ "، مگر شیبا کو ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

کیمپ کے ایک خیمے کو لیبر روم کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ بد بو غلاظت سے ڈاکٹر شیبا کا دماغ پھٹنے لگا۔ جاہل عورتوں کی آہ و بکا اس کی طبع نازک پر ناگوار گزرنے لگی۔۔ دو نرسیں اتنی خواتین کے لئے نا کافی تھیں۔

وہ کبھی ایک کو چیک کرتیں تو کبھی دوسری کی طرف بھاگتیں۔۔ تھکن اور بیزاری نے انھیں بھی چڑ چڑا کر دیا تھا۔ ڈاکٹر شیبا کو دیکھ کر دونوں نے مستعد نظر آنے کی کوشش کی۔

ڈاکٹر شیبا نے خیمہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر ایک نظر سب پر ڈالی۔ آٹھ دس خواتین تھیں۔ دو چار کو ہی چار پائی نصیب ہوئی تھی۔۔ باقی تو سخت زمین پر فقط ایک چادر یا گدڑی پر پڑی تھیں۔ درد سے بے حال زلیخا نے دھندلائی ہوئی آنکھوں سے دور کھڑی ڈاکٹر کو دیکھا۔

"واٹ نان سینس از دس۔۔ اب کیا میں زمین پر بیٹھ کر ان کو دیکھو گی۔۔ امپاسبل۔۔ میں ابھی اوپر بات کرتی ہوں۔۔ " ڈاکٹر شیبا نے اپنا موبائل نکالا اور ناگواری سے شور مچاتی ان عورتوں کو دیکھا۔۔

"اف۔۔ اتنا شور ڈالا ہوا ہے۔۔ " اسے وہاں سے نکلنے کا بہانہ چاہئے تھا۔۔ وہ باہر نکل کر اپنی اے سی گاڑی میں جا بیٹھی۔

میڈم پلیز۔۔ یہاں حالات بہت خراب ہیں۔۔ کوئی سہولت نہیں ہے۔۔ نہ اسٹریچرز ہیں۔۔ نہ اوزار ہیں۔۔ "

تھوڑی دیر فون پر بات کرنے کے بعد شیبا "اوپر" ایسا تاثر دینے میں کامیاب ہوگئی کہ وہ یہاں دل و جان سے لوگوں کی خدمت کر رہی ہے مگر سہولیات کی عدم دستیابی خواتین کی زندگی کے لئے خطرہ ہے۔ اب موبائل پر دوستوں اور رشتے داروں سے گپ شپ کا دور چل رہا تھا۔ تب ہی ایک نرس دوڑتی ہوئی آئی اور ڈرتے ڈرتے گاڑی کا شیشہ ناخن کھٹکھٹایا۔

"کیا ہے؟" ڈاکٹر شیبا نے ناگواری سے پوچھا

"وہ میڈم۔۔ ایک کیس بگڑ گیا ہے۔۔ بچے کا سر۔۔ وہ۔۔ سر اندر رہ گیا ہے اور دھڑ با ہر۔۔ بغیر سر کے۔۔ "، نرس کپکپا رہی تھی۔

ڈاکٹر شیبا بھی ایک لمحے کے لئے سناٹے میں آ گئی۔ کار سے اتر کر عارضی لیبر روم تک جانا ہی پڑا۔

زلیخا کی حالت بری تھی۔ وہ موت کی سرحد پرکھڑی تھی۔۔ بچہ پیدا کروانے کی کوشش میں نرسوں نے اس کو ادھ مرا کر دیا تھا۔ وہ زندگی کی پھسلتی ہوئی پتنگ کو اپنے نحیف ہاتھوں سے تھامنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ابھی تک اس کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کیا قیاقت گزر گئی ہے۔۔

باہر دین محمد بچے کے رونے کی آواز سننے کا منتظر تھا اور اندر بے سر کا بچہ زلیخا کے قدموں میں پڑا تھا۔ نرس نے بچے پر کپڑا ڈال دیا تھا ورنہ آس پاس موجود خواتین شور مچا دیتیں۔۔ معاملہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔

"اب کیا کریں؟" نرسیں ڈاکٹر کا منہ تک رہی تھیں۔

"سر اب بھی اندر ہے۔۔ " نرس نے ڈاکٹر شیبا کے کان میں سرگوشی کی۔

"ڈاکٹر صاب۔۔ یہ مر جائے گی۔۔ اس کو اسپتال پہنچانا ہوگا۔۔ فوراً۔۔ " دوسری نرس، زیادہ سینئر تھی۔ حالات کی سنگینی کو محسوس کر سکتی تھی۔

"جائے گی کیسے؟" ڈاکٹر نے پوچھا

"میڈم اگر آپ کی گاڑی۔۔ " نرس کی آدھی بات سن کر شیبا کا پارہ ہائی ہوگیا۔

واٹ۔۔ آر یو میڈ۔۔ میری گاڑی اسی کام کے لئے رہ گئی ہے۔۔ ستیاناس کروا لوں گاڑی کا؟"

نرس اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔ گاڑی بچانے کی خاطر شیبا کو زلیخا پر جھکنا ہی پڑا۔ تھوڑی زور آمائی کے بعد ڈاکٹر شیبا نے بچے کا سر بھی آزاد کروالیا۔

"سر کو دھڑ کے ساتھ سی دو۔۔ خاموشی سے۔۔ " ڈاکٹر شیبا اب ایک لمحہ اس غلیظ جگہ پر نہیں رک سکتی تھی، اس نے دستانے اتارے۔۔ ایپرن پھینکا اور باہر بھاگی۔

"چلو ڈرائیور۔۔ " گاڑی خاک اڑاتی وہاں سے نکل گئی۔

دین محمد سرا سیما کھڑا رہ گیا۔۔

نرسوں کی جان پر بنی تھی۔۔

لوگ گردن سلی دیکھ کر مشتعل نہ ہو جائیں۔۔ "جونئیر نرس خوف سے کانپ رہی تھی۔

سینئر نرس نے جلدی جلدی بچے کا سر دھڑ سے جوڑا اور آنول نال کو گردن کے گرد اچھی طرح الجھا کر لپیٹ دیا۔۔ زلیخا درد کے شدت سے بے ہوش تھی۔

نرس نے بچے کا مردہ جسم کپڑے میں لیٹا اور دین محمد کو تھما دیا۔

"نال گردن پر لپٹ گئی تھی۔۔ بچہ دم گھٹنے سے مر گیا۔۔ "، دین محمد کے ہاتھوں میں بچے کا مردہ جسم ہاتھ میں لئے کھڑا تھا۔

***

بس ڈاکٹر صیب۔۔ جو اللہ کی مرضی۔۔ یہ کملی مانتی ہی نہیں تھی کہ اس کا بچہ مر چکا ہے۔۔ دوسری عورتوں کے بچے اٹھا کر بھاگنے لگتی۔۔ پھر میں نے یہ کپڑے کا گڈّا بنا کر اسے دے دیا۔۔ اب خوش ہے۔۔ اس کا بچہ جو اس کو مل گیا۔۔ "

وہ بوڑھا اپنے آنسو آستین سے صاف کرتا چلا گیا۔

***

ڈاکٹر اریبہ نے کیمپ کے عارضی لیبر روم کی طرف دیکھا۔۔ ماہ و سال گزر گئے، کیلنڈر پر نمبر بدل گئے۔۔ مگر حالات وہی رہے۔

ڈکٹر اربیہ کو لگا جیسے اس کے چاروں طرف عورتیں کپڑے کے گڈّے لئے کھڑی ہیں۔ اور میرا گڈّا۔۔ میرا گڈّا۔۔ کی آوازیں آ رہی ہیں۔

Check Also

21 Topon Ki Salami To Banti Hai

By Muhammad Waris Dinari