Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Selab Kahani, Kitabon Ke Dukh

Selab Kahani, Kitabon Ke Dukh

سیلاب کہانی: کتابوں کے دکھ

"اماں بھائی کہاں گیا؟" چھ سالہ گڑیا اپنے ایک سالہ بھائی گڈو کو بہت یاد کرتی تھی، زرینہ نے نم آنکھوں سے بیٹی کی طرف دیکھا۔ بڑی مشکل سے زخم پر کھرنٹ آتا تھا اور گڑیا اکثر اس کھرنٹ کو اپنے سوالوں کے ناخنوں سے کھرچ کر اتار دیتی تھی۔

وہ ٹھنڈی سانس بھر کر کہا "بھائی اللہ کے پا س چلا گیا۔۔ "

گڑیا کے اندر بھی ایک ماں تھی جس کی ممتا اپنے چھوٹے بھائی کے لئے کرلاتی رہتی تھی۔ اسکو بھی صبر نہیں آتا تھا۔ روز گڈو کی کوئی نہ کوئی چیز اس کے ہاتھ لگ جاتی اور روز وہ اس کو یادکرنے بیٹھ جاتی تھی۔

"مگر امی۔۔ تم نے کہا تھا اللہ نے بھائی دیا ہے۔۔ واپس کیوں لے لیا؟"

آنسو اب زرینہ کے رخساروں کو بھگو رہے تھے۔ جس دکھ کو وہ سارا دن دباتی رہتی تھی وہ دکھ پوری جان سے پھر اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔

"اس کی چیز تھی۔۔ اس کی مرضی۔۔ "

"مگر رانی خالہ تو کہہ رہی تھی ڈاکٹر نہیں ملا اس لئے گڈو مر گیا۔۔ اگر ڈاکٹر ہوتا تو گڈو بچ جاتا۔۔ "، گڑیا کا دل نہیں مان رہا تھا۔

"ہاں بیٹا۔۔ ہمارے گاؤں میں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔۔ گاؤں کے اسپتال میں کوئی ڈاکٹر نہیں آتا۔۔ شہر جانے کے پیسے نہیں تھے۔۔ علاج نہیں ہوا۔۔ علاج ہو جاتا تو ہمارا گڈو بچ جاتا۔۔ "، زرینہ گڑیا کو گلے لگا کر رو پڑی۔

"امی بار بار گاؤں میں لوگ مرتے ہیں۔۔ رانی خالہ کی بیٹی مری۔۔ میری دوست رابعہ کی امی مر گئیں۔۔ سب یہ ہی کہتے ہیں ڈاکٹر نہیں تھا اس لئے نہیں بچے۔۔ اسپتال میں کوئی نہیں آتا۔۔ اس لئے مر گئے۔۔ امی ہمارے گاؤں کے اسپتال میں کوئی ڈاکٹر کیوں نہیں ہے؟"

گڑیا کا ننھا سا ذہن سوالوں سے بھرا پڑا تھا۔ زرینہ کے پاس سوائے سسکیوں کے کوئی جواب نہ تھا۔ عباس نے ننھی گڑیا کو اپنی گود میں بٹھالیا اور کہا "بس بیٹا۔۔ یہ چھوٹا سا گاؤں ہے۔۔ ڈاکٹر لوگ شہر کی زندگی چھوڑ کر یہاں نہیں آنا چاہتے۔۔ حکومت نے اسپتال تو بنا دیا ہے۔۔ مگر وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ٹکتا۔۔ تھوڑے دن کام کرتے ہیں پھر شہر چلے جاتے ہیں۔۔ "

"بابا۔۔ میں بڑی ہو کر ڈاکٹر بنوں گی۔۔ میں سب کا علاج کروں گی۔۔ میں شہر نہیں جاؤں گی۔۔ اپنے گاؤں کے اسپتال میں کام کروں گی۔۔ "

گڑیا نے بڑے عزم سے کہا، زرینہ اس کے معصومیت پر روتے روتے مسکرادی۔

گڑیا کو پڑھنے کا شوق تھا۔ صبح بنا کہے ہی اٹھ بیٹھتی تھی۔ گاؤں کا چھوٹا سا اسکول اس کی پسندیدہ ترین جگہ تھی۔ گاؤں کی ہی ایک پڑھی لکھی خاتون وہاں بطور استاد مقرر تھیں۔ اسی لئے ٹوٹا پھوٹا ہی سہی مگر بچوں کا سلسلہ تعلیم جاری تھا۔

گڑیا کا بستہ اس کی کل کائنات تھا۔ وہ اپنی ہر کتاب ہر کاپی کو نک سے سک سجا کر رکھتی تھی۔ اسکول جانے کا شوق اس کے خون میں دوڑتا تھا۔

اور اب تو ایک لگن تھی "ڈاکٹر بنوں گی۔۔ گاؤں میں سب کا علاج کر دوں گی۔۔ "

عباس بھی کہتا "ہاں۔۔ میری بیٹی ڈاکٹر بنے گی۔۔ میں اپنی بیٹی کو ضرور پڑھاؤں گا۔۔ شہر لے جاؤں گا۔۔ پھر میری گڑیا بڑی ڈاکٹرنی بن کر گاؤں آئے گی۔ "

ماں باپ اس کی طرف بڑی امید سے دیکھتے تھے۔

٭٭٭

"دریا کا پانی بڑھتا جا رہا ہے۔۔ کنارے کنار ے کے سب کھیتوں میں پانی بھر رہا ہے۔۔ یہاں سے نکلنا ہوگا۔۔ "، رات ہی عباس نے زرینہ سے کہا تھا۔

ضروری سامان باندھا جا چکا تھا۔ عباس نے کمرے میں اونچا مچان باندھ کر باقی سامان اس پر چڑھا دیا تھا۔

"لا گڑیا۔۔ اپنا بستہ بھی دے۔۔ اوپر رکھ دیتا ہوں۔۔ " عباس نے پکارا تو گڑیا شش و پنج کا شکار ہوگئی۔

"اپنا بستہ ساتھ لے کر جاؤں یا مچان پر رکھوا دوں؟"

" بابا۔۔ ابھی مجھے کام کرنا ہے۔۔ کل رکھ دینا۔۔ "، اس نے مہلت حاصل کر لی۔

اس رات بھی وہ دیر تک اپنا بستہ لئے بیٹھی رہی۔۔ اسکول کا کام مکمل کیا۔۔ ہل ہل کر سبق یاد کیا۔۔ پھر کتابوں کو بڑی محبت سے جما یا اور فیصلہ کیا۔

"ایک کاپی ایک پینسل ساتھ لے جاؤں گی۔۔ تاکہ وہاں جا کر لکھتی رہوں۔۔ باقی بستہ مچان پر رکھوا دوں گی۔۔ "

مگر ایسا ہو نہ سکا، رات کے پچھلے پہر پانی گاؤں کے گھروں میں در آیا۔۔ لوگ سراسیما ہو کر گھروں سے نکلے۔

پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ لوگوں کو جان بچانے کی مہلت بھی بڑی مشکل سے ملی۔ عباس نے گڑیا کو کندھے پر بٹھایا۔۔ زرینہ کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اوربڑی سڑک کی طرف بھاگا۔ سوتی جاگتی گڑیا کو بڑی دیر بعد ہوش آیا۔

"میرا بستہ۔۔ بابا میرا بستہ۔۔ "، مگر اب دیر ہو چکی تھی۔۔ گاؤں میں کئی فٹ پانی بھر چکا تھا۔

گڑیا کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔

"میرا بستہ تو پلنگ پر ہی رہ گیا تھا۔۔ اب کیا ہوگا۔۔ میری کتابیں۔۔ میری پینسل۔۔ "

لوگ اپنے کھیت کھلیان۔ مال مویشی کو رو رہے تھے اور گڑیا اپنی کتابوں کے لئے سسک رہی تھی۔

"بابا میرا بستہ لادو۔۔ "

عباس نے اس کو گلے لگا کر تسلی دی وہ جانتا تھا کہ گڑیا کو اپنا بستی کس قدر عزیز ہے۔

"تھوڑا پانی اتر جائے تو میں تیرا بستہ لا دوں گا۔۔ "، لیکن پانی تو کئی دن تک یوں ہی کھڑا رہا۔۔ لوگ کنارے پر کھڑے اس سمت میں دیکھتے جہاں کبھی پگ ڈیڈیاں ان کو گھر وں تک جاتی تھیں۔۔

جلد ہی سڑک کنارے پڑے بے یار ومدد گار لوگوں کو ریلف کیمپوں میں پہنچا دیا گیا۔ مگر کیمپ کی زندگی آسان نہ تھی۔ لوگ ہی لوگ تھے

خوراک، لباس، ادویات جگہ ہر چیز کی کمی تھی۔۔ مگر یہ کڑا وقت تو نکالنا ہی تھا۔

کچھ لوگوں کو خیمے ملے کچھ نے چادریں اور پلاستک شیٹ باندھ کر اپنی چھت خود ہی بنالی۔ لوگ اب بھی گاؤں کی سمت جاتے مگر پانی بہت معمولی رفتار سے اتر رہا تھا۔

بڑے دن بعد جب پانی کچھ کم ہوا تو عباس کیچڑ میں قدم رکھتا گھر کو دیکھنے چل پڑا۔ جو سامان اوپر رکھا تھا وہ کسی حد تک محفوظ رہا مگر نیچے رکھا سب سامان کئی دن بھیگا رہا۔ گڑیا کا بستہ چارپائی پر تھا۔

جب تک پانی کی سطح کم نہ ہوئی بستہ بھیگا رہا مگر جب پانی کم ہوا تو بستہ خشک ہوگیا۔ مگر اس تری و خشکی نے کتابوں کو برباد کر دیا۔

گڑیا اپنے خیمے کے دروازے پر گھڑی اپنے بابا کا انتظار کر رہی تھی۔۔ جوں ہی اس نے عباس کے ہاتھ میں اپنا بستہ دیکھا وہ دوڑ کر گئی اور جھپٹ کر اپنا بستہ بابا کے ہاتھ سے لیا مگر کتابوں اور کاپیوں کی حالت دیکھ کر اس کے آنسو رواں ہو گئے۔

کتنی مشکل سے یہ چند کتابیں ملی تھیں۔۔ کاپیوں میں کتنا سارا کام کیا تھا۔۔ وہ زمین پر بیٹھ کر ایک ایک صفحہ کھولنے لگی۔

٭٭٭

"سیلاب زدگان کے کیمپ میں بچے بھی ہیں۔۔ کسی نے ان کے بارے میں کیوں نہیں سوچا۔۔ "

صنوبر نے میز پر رکھا پین گھماتے ہوئے کہا " کیا مطلب؟ ہم نے کیمپ میں بچوں کو خوراک لباس ادویات سب ہی پہنچائی ہیں۔۔ "

شمائلہ نے حیرت سے کہا "شمائلہ۔۔ بچوں کو ان سب کے علاوہ ایک اور چیز کی ضرورت ہے۔۔ وہ ہے تعلیم۔۔ اس سیلاب میں صرف بڑوں کا نقصان نہیں ہوا۔۔ بچوں کا بھی ہوا ہے۔۔ بچوں کا تعلیمی سال ضائع ہوا۔۔ گاؤں میں ویسے بھی تعلیم کا معیار و رجحان بہت کم ہے۔۔ حکومت کی طرف سے مفت کتابیں فراہم کی جاتی ہیں مگرتدریس کا سامان شہروں سے آگے کم ہی پہنچ پاتا ہے۔۔ اب جو تھوڑا بہت تعلیم کا سلسلہ تھا وہ بھی رک گیا۔۔ ان غریب بچوں کے بستے کتابیں کاپیاں سب تباہ ہو گئے۔۔ کل کیمپ میں مجھے ایک بچی نظر آ ئی۔۔ زمین پر بیٹھی اپنا بستہ دیکھ رہی تھی۔۔ اس کے بستے کا سب سامان پانی سے خراب ہو چکا تھا۔۔ وہ ایک ایک صفحہ کھول رہی تھی اور روتی جارہی ہے۔۔ یار میرا دل کٹنے لگا۔۔ بڑوں کے دکھ تو سب کو نظر آئے۔۔ اس بچی کا دکھ کسی نے دیکھا ہی نہیں۔۔ "

شمائلہ بھی خاموش سی ہوگئی۔ اس طرف اس کا خیال کبھی نہیں گیا۔

"ہمیں اسکول جانے والے بچوں کے لئے کچھ کرنا ہوگا۔۔ "

"اب ہم خوراک، پانی۔ لباس اور ادویات کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم کے لئے کوشش کریں گے۔۔ "

صنوبر بہت پر عزم سوشل ورکر تھی۔ اس نے اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ایک تنظیم بنائی تھی جس کا مقصد لوگوں کی مدد کرنا تھا۔ اس سیلاب سے پہلے بھی وہ اردگرد موجود لوگوں کی مدد کے لئے کوشاں رہتی تھی۔۔ اور سیلاب کے دوران تو وہ اور اس کی تنظیم دن رات مصروفِ عمل رہی۔۔

اب ان کی ایجنڈے میں خوراک علاج کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی شامل ہو چکی تھی۔

٭٭٭

گڑیا سب سے پہلے وہاں پہنچی تھی۔

ایک خیمے کے اندر ایک آنٹی کلاس جیسا بورڈ سیٹ کر رہی تھیں۔ ان کے قریب کچھ اور آنٹیاں بھی تھیں۔ ڈھیر سارے باکس کھول کھول کر اس میں سے کتابیں کاپیاں پینسل وغیرہ نکال رہی تھیں۔ آہستہ آہستہ اور بچے بھی جمع ہونا شروع ہو گئے۔

ذرا دیر بعد کیمپ کے سارے بچے وہاں موجود تھے۔ جلد ہی کلاس سیٹ کر دی گئی۔ گڑیا کی تو جیسے عید ہو گئی۔ باقی بچے بھی خوشی خوشی چٹائی پر بیٹھ گئے۔

مستقبل اتنا بھی تاریک نہیں۔۔ روشنی کی کرن راستہ تک رہی ہے۔۔ صرف ایک روزن کی تلاش ہے، پھر ہر طرف اجالا ہی اجالا ہوگا۔

٭٭

Check Also

Mera Gaun

By Muhammad Umair Haidry