Selab Kahani, Khazana
سیلاب کہانی: خزانہ
"میں سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔۔ انھیں اپنے ہاتھ سے کچھ دینا چاہتی ہوں"۔ سمیرانے مجھ سے کہا تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی میں نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔
"یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔ آپ کو ضرور ان کی مدد کرنی چاہئے۔۔ لوگ اور خاص طور پر عورتیں اور بچے تو بہت قابل رحم حالت میں ہیں۔۔ "
سمیرا اداسی سے بولی "کیا خبر ان میں سے کسی کی دعا لگ جائے۔۔ میرے بچے ٹھیک ہو جائیں۔۔ اور مجھے اس ڈپریشن سے نجات مل جائے۔۔ "
میں اس کو اداس دیکھ کر خود بھی اداس ہو گئی اور کہا "آپ فکر نہ کریں۔۔ یہ انشا اللہ ٹھیک ہو جائیں گے۔۔ آپ ماں ہیں۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ضرور سن لے گا۔۔ "
سمیرا نے اداس نظروں سے مجھے دیکھا اور مسکرا دی۔
٭٭٭
میں گورنمنٹ ہسپتال میں نرس کے طور پر کام کرتی ہوں۔ ایک بڑے کنبے کی کفالت میرے ذمے ہے اور میری مختصر تنخواہ تیس دن کے طویل مہینے کو نہیں کھینچ پاتی۔ اسی لئے میں نے فزیو تھراپی کا کورس کیا اور شام میں فزیو تھراپی کی سروسز دینے لگی۔ اگرچہ اسپتال کی شدید محنت کے بعد شام کو پھر سے کسی کے گھر جا کر کام کرنا کافی محنت طلب جاب تھی مگریہ اضافی آمدنی میرے لئے بڑی مدد گار ثابت ہوئی۔
سمیرا نے کہیں سے میرا نمبر حاصل کیا اور مجھ سے تقریباً ایک ماہ قبل رابطہ کیا تھا۔ اس کے چار بچے تھے۔ سب سے بڑا بیٹا پندرہ سال کا تھا اور باقی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ سمیرا کا صرف سب سے بڑا بیٹا صحت مند تھا۔ اس کا چھوٹا بیٹا ٹانگوں کے ٹیڑھے پن کا شکار تھا۔ وہ چل نہیں سکتا تھا اور مجھے اس ہی کی فزیو تھراپی کے لئے مامور کیا گیا تھا۔ دونوں بیٹیاں تھلیسیما کی مریض تھیں۔ روپے پیسے کی فراوانی تھی مگر ان امراض کا علاج ممکن نہ تھا۔ کوئی دوا اس کے بچوں کے لئے دائمی علاج نہیں بن سکتی تھی۔ اس حقیقت نے سمیرا کو ڈپریشن کا مریض بنا دیا تھا۔ اداسی کی شخصیت کا حصہ بن چکی تھی۔
وہ اکثر مجھ سے اپنی دلی کیفیت کے بارے میں بات چیت کرتی "میں ان کے علاج کے لئے دنیا میں کہیں بھی جا سکتی ہوں۔۔ مگر ان کے علاج کا دنیا میں کہیں نہیں ہے۔۔ زندگی میں ہر شے موجود ہے مگر میرا دل مر چکا ہے۔۔ مجھے اچھا کھانا خوشی دیتا ہے نہ اچھا لباس۔۔ میں اور ان کے پاپا۔۔ ہم دونوں ہی ذہنی طور پر پریشان ہیں۔۔ وہ پھر مرد ہیں۔۔ گھر سے باہر ہی رہتے ہیں۔۔ مگر میں! لگتا ہے میں زندگی نہیں گزار رہی۔۔ زندگی مجھے گزار رہی ہے۔۔ "
اور میں اس کو دیکھ کرسوچتی نہ جانے خدا اپنے کچھ بندوں پر اتنا بوجھ کیوں ڈالتا ہے؟
٭٭٭
زندگی اپنی روانی سے چل رہی تھی۔ صبح سے شام تک اسپتال اور پھر شام کو پرائیوٹ مریضوں کی فزیو تھراپی کا سلسلہ جاری تھا۔
پھر ملک میں سیلاب آگیا اور ایک ہنگامی صورت حال پیدا ہو گئی۔ میں جس اسپتال میں کام کرتی تھی وہ شہر کا مرکزی اسپتال تھا۔ سیلاب کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اسپتال کی ایمبولینسز کو موبائل اسپتال میں تبدیل کر دیا گیا جو امدادی کیمپوں میں مقیم سیلاب زدگان کو طبی سہولیات فراہم کرتی تھیں۔ میری ڈیوٹی بھی ایسے ہی ایک کیمپ میں لگا ئی گئی۔
روز ایمبولینس سے کیمپ تک جانا اور شام تک مسلسل کام کرنا۔۔ روٹین کافی ٹف ہو گئی تھی۔ ان کیمپوں میں جا کر مجھے زندگی کی حقیقی مشکلات کا اندازہ ہوا۔ اپنے آرام دہ گھر میں بیٹھ کر ٹی وی یا مو بائل پر کسی بھی زمینی آفت کے شکار لوگوں کی ویڈیو دیکھنا اور خود اس ماحول کا حصہ بننا دو مختلف باتیں ہیں۔
جب تک میں ان کیمپوں میں نہیں گئی تھی مجھے سیلاب زدگان سے اوپری سی ہمدردی تھی مگر جب میں اس ماحول کا حصہ بنی تو مجھے اندازہ ہوا کہ کسی زمینی آفت کا شکار ہونا کتنی تکلیف دہ صورت حال پیدا کرتا ہے۔
کیمپ میں جگہ، پانی، خوراک، لباس اور ادویات غرض ہر چیز کی کمی تھی۔ کیمپ میں بڑھتی گندگی نے بیماریوں کے لئے ایک نیا در کھول دیا تھا۔ اسپتال کی موبائل ایمبولینس کو دیکھ کر عورتیں ایسے خوش ہو جاتیں جیسے انھیں زندگی کی کرن نظر آئی ہو۔
"باجی اس کو شام سے موشن لگے ہیں۔۔ "
میں نے بچے کے حالت دیکھ کر سر پیٹ لیا۔ "بی بی اس کے ہاتھ دیکھو۔۔ یہ اتنی گندے ہاتھ بار بار منہ میں لے گا تو موشن تو ہوں گے نا۔۔ ہاتھ منہ دھلاؤ۔۔ صاف ستھرا رکھو۔۔ "
باجی!ہاتھ کہاں سے دھلاؤں؟ یہاں تو بس یہ گندہ پانی ہی ہے۔۔ صاف پانی تو پینے کو نہیں مل رہا۔۔ "
میں اپنے لہجے کی سختی پر شرمندہ ہو جاتی۔ "اچھی خوراک لو۔۔ دودھ پیو۔۔ پھل کھاؤ۔۔ بہت کمزوری ہے تمہیں۔۔ ڈلیوری میں مشکل ہوگی۔۔ "
میں کسی حاملہ عورت کو مشورہ دیتی تو وہ حیرت سے مجھ سے پوچھتی "اچھی خوراک کہاں سے ملتی ہے؟ ہمیں تو اپنے گھروں میں کبھی اچھی خوراک نہیں ملی۔۔ اس کیمپ میں تو پیٹ بھر روٹی نہیں ملتی۔۔ دودھ اور پھل کہاں سے آئیں گے؟"
دنیا کا سب سے آسان کام غریب کو مشورہ دینا ہے اورسب سے مشکل کام اس کی مدد کرنا ہے!
کچھ ہی دن میں میری سب سے جان پہچان ہو گئی۔ عورتیں اپنے دکھ درد مجھے سنانے لگیں، سب کے دکھ مشترک تھا
"میرا گھر بہہ گیا۔۔ تنکا تنکا جوڑا تھا۔۔ سب کیسے سب دوبارہ بنے گا؟"
"مال مویشی فصلیں برباد ہو گئیں۔۔ واپس جا کر زندگی کیسے گزرے گی؟"
ان ہی خواتین میں ایک ضعیف خاتون صالحہ بی بی اپنی جواں سال مگر ذہنی پسماندہ بیٹی کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کا دکھ سب سے جدا تھا۔
"ایک گھر تھا وہ بھی بہہ گیا۔۔ اب میں اس کو لے کر کہاں سر چھپاؤں گی۔۔ میرے بعد اس کا کیا ہوگا؟ یہ بھیڑیوں کا معاشرہ تو پالنے میں پڑی بچیوں کو نہیں چھوڑتا۔۔ قبر میں دفن عورت تک کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا لیتا ہے۔۔ اس کملی کو تو یہ کھا جائے گا"۔
میں بے بسی سے ان کو دیکھتی۔۔ ان کے درد کا درماں میرے پاس نہ تھا۔
"ماں جی۔۔ آپ کا کوئی اور رشتہ دار نہیں ہے؟"
ماں جی بڑی زہر خندہ ہنسی ہنس کر بولیں"کیوں نہیں ہے؟ بیٹا ہے۔۔ بہوہے۔۔ پوتا پوتی سب ہیں۔۔ "
میں نے حیرت سے ان کو دیکھا "تو وہ کہاں ہیں؟ آپ ان کے پاس کیوں نہیں چلی جاتیں۔۔ بیٹے کے ہوتے ہوئے آپ یہاں بے یار ومدد گار پڑی ہیں!"
وہ رونے لگیں"میری بہو کو اس لڑکی سے ڈر لگتا ہے۔۔ اس سے گھن آ تی ہے۔۔ وہ اس کا سایہ بھی برداشت نہیں کرتی۔۔ اس کی دوا دارو کا خرچہ نہیں اٹھانا چاہتی۔۔ بیٹا کہتا ہے یہ میری ذمہ داری نہیں ہے۔۔ میں ماں ہوں۔۔ اس کو نہیں چھوڑ سکتی۔۔ اس لئے بیٹے نے مجھ چھوڑ دیا۔۔ سننا ہے شہر میں بڑا گھر ہے اس کا۔۔ مگر۔۔ "
میں حیرت زدہ انھیں دیکھتی رہ گئی۔
٭٭٭
"میں خود اس کیمپ میں جا کر ان لوگوں کو کچھ دینا چاہتی ہوں۔۔ میری ڈاکٹر نے کہا ہے کہ میں مشکل میں گرفتار لوگوں کے ساتھ وقت گزاروں گی تو میرا ڈپریشن کم ہو جائے گا۔۔ " سمیرا نے کہا۔
سمیرا کا ڈپریشن بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ دوائیں کھا کھا کر مزید جسمانی بیماریوں کا شکار ہوتی جا رہی تھی۔ وہ ان کیمپوں میں میرے ساتھ جانا چاہتی تھی۔
مجھے بھی کوئی اعتراض نہ تھا سو اگلے دن وہ بھی میرے ساتھ کیمپ میں موجود تھی۔ وہ کیمپ میں مقیم لوگوں کے لئے خوراک کے پارسل لائی تھی۔ میں نے اس کے لئے اپنے ساتھ ہی کرسی رکھ دی۔ وہ عورتوں کے بیماریوں اور دکھوں کی داستانیں سنتی رہی
"اف۔۔ ایسی مشکل زندگی!"
وہ واقعی اپنا غم بھول گئی۔ لوگ کھانے کا پارسل لے کر اس کو دعائیں دیتی ہوئے جا رہے تھے۔ اس وقت صالحہ بی بی اپنی ذہنی پسماندہ بیٹی کو لے کر آئیں۔ انھیں دیکھ کر نجانے سمیرا کو کیا ہوا۔۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی
"آپ۔۔ آپ یہاں؟" وہ حیرت کی تصویر بنی کھڑی تھی۔ صالحہ بیگم بھی اس کو دیکھ کر تھوڑا حیران ہوئیں اور پھر بولیں"جن ماؤں کے جوان بیٹے انھیں چھوڑ جاتے ہیں وہ ایسی ہی جگہوں پر پائی جاتی ہیں۔۔ " پھر وہ مجھے مخاطب کر کے بولیں"آپ پوچھتی تھیں نہ کہ میرا بیٹا اور بہو کون لوگ ہیں؟ دیکھ لیجئے انھیں۔۔ یہ میری بہو ہیں۔۔ "
میں ہکا بکا دونوں کی شکل دیکھتی رہ گئی۔ صالحہ بی بی مڑ کر جانے لگیں تو سمیرا یک دم بھاگی اور ان سے لپٹ گئی۔
"مجھے معاف کردیں۔۔ مجھے میرے غرور کی کڑی سزا ملی ہے۔۔ میں نے آپ کی ایک بیمار بیٹی کونشانہ بنایا تھا۔۔ اللہ نے مجھے تین بیمار بچوں سے اسکا بدلہ دیا ہے۔۔ آپ مجھے معاف کر دیں تو اللہ بھی معاف کر دے گا۔ آپ میرے ساتھ میرے گھر چلیں۔۔ میرے نہیں بلکہ اپنے گھر۔۔ "
صالحہ بی بی بلا آخر ایک ماں تھیں۔ اپنے بیٹے کی تین اولادوں کی بیماری کا سن کر ان کی روح تڑپ اٹھی۔
٭٭٭
سمیرا اس دن میرے ساتھ اس کیمپ میں مصیبت زدہ لوگوں کو کچھ دینے گئی تھی اور جب واپس آ ئی تو اس کے پاس ایک انمول خزانہ تھا۔ ماں! خزانہ ہی تو ہوتی ہے۔
٭٭٭