Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Selab Kahani, Jawan Larka

Selab Kahani, Jawan Larka

سیلاب کہانی: جوان لڑکا

"لڑکا ہے۔۔ " ڈاکٹرسونیہ نے اپنی الٹرا ساؤنڈ مشین عروسہ کے پیٹ سے ہٹائی اور لڑکے کی اطلاع دے کر مشین پر سے جیل صاف کرنے لگی۔

تین بیٹیوں کے لڑکے کی خوش خبری سن کر عروسہ کھل اٹھی۔ مگر ڈاکٹر سونیہ کے چہرے پر صرف سنجیدگی تھی ورنہ عموماً ایسے موقعہ پر ڈاکٹر بھی خوشی کا اظہار کرتی پائی جاتی ہیں۔

عروسہ الٹرا ساؤنڈ بینچ سے اٹھی اور ڈاکٹرکے سامنے کر سی پر جا بیٹھی۔ دل چاہتا تھا کہ جی بھر کر خوش ہو مگر ڈاکٹر کا چہرہ کچھ اور ہی کہہ رہا تھا۔

ڈاکٹر سونیہ نے اپنی کرسی سنبھالتے ہی بیل بنا کر ماسی کو اندر بلایا اور کہا "عروسہ الیاس کے شوہر کو اندر بھیجو"۔

اب تو عروسہ کا دل دھک سے رہ گیا۔ چھوٹے سے پسماندہ علاقے کا اسپتال تھا یہاں ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ ڈاکٹر کسی مریضہ کے شوہر کو اندر بلائے۔

باہر ماسی نے زور دار آواز لگائی "عروسہ الیاس کا شہر کہاں ہے؟ ڈاکٹر صاب اندر بلا رہی ہیں"۔

موبائل پر گیم کھیلتا الیاس بھی حیران ہوا اور آستین کے بٹن بند کرتا ڈاکٹر کے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔ دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اورپھر ڈاکٹرکا چہرہ تکنے لگے۔

ڈاکٹرسونیہ نے سنجیدگی سے بات شروع کی "دیکھو۔۔ مجھے شک ہے کہ بچے کے ساتھ کچھ پرابلم ہے۔۔ "

عروسہ کے پیروں تلے زمین سرک گئی۔ ڈاکٹر الٹرا ساؤنڈ کے پرنٹ کو بغور دیکھتے ہوئے بولی "بچے کی کمر پر کچھ نظر آ رہا ہے۔۔ شائد کوئی پھوڑا ہے۔۔ "

الیاس اور عروسہ کے دل رک سے گئے۔ "اس کو شہر لے جاؤ اور کسی اچھی جگہ سے کلر الٹرا ساؤنڈ کرواؤ۔۔ "

عروسہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

" نہیں نہیں پریشان مت ہو۔۔ اب تو جدید دور ہے۔۔ ماں کے پیٹ میں ہی بچے کا علاج کر دیا جاتا ہے۔۔ فکر کی بات نہیں۔۔ "

ڈاکٹر سونیہ نے خالی خالی لہجے میں عروسہ کو تسلی دی۔ ورنہ وہ جانتی تھی کہ اسپائنل بافیڈا کا دنیا میں کہیں کوئی علاج نہیں۔

دونوں تھکے قدموں سے ڈاکٹر کے کیبن سے باہر نکل آئے۔ حمل کو آخری مہینہ تھا۔ اتنا طویل اور دردناک وقت گزارنے کے بعد اب جب وہ بچے کی آمد کے منتظر تھے اس خبر نے جسموں سے خون نچوڑ لیا تھا۔

ڈاکٹر سونیہ کا چہرہ صاف کہہ رہا تھا کہ بچے کا مستقبل مخدوش ہے۔ الیاس نے اپنے استطاعت کے مطابق عروسہ کو شہر کی ایک اچھی ڈاکٹر کو دکھا بھی دیا۔ انھوں نے رہی سہی امید بھی ختم کر دی۔

"پھوڑا ہے بچے کی کمر پر۔۔ بچے کا نچلا دھڑ بے کار ہے۔۔ دماغ میں پانی بھی بھرا ہوا ہے"۔

عروسہ بے بسی سے رونے لگی الیاس نے پوچھا "ڈاکٹر صاب کوئی علاج؟"

ڈاکٹر نے بے حسی سی کہا "کوئی علاج نہیں ہے۔۔ ایسے بچے زندگی بھر ایسے ہی رہتے ہیں۔۔ نہ یہ چل پائے گا۔۔ پوٹی۔۔ پیشاب کسی چیز پر کنٹرول نہیں ہو گا"۔

عروسہ کے جسم سے جان نکل ہو گئی۔ وہ جیتے جی ایک زندہ لاش بن گئی۔ بچہ بالکل ویسا ہی پیدا ہوا جیسا ڈاکٹر نے بتایا تھا۔

کمر پر ایک بڑا سا پھوڑا اور نچلا دھڑ بے کار۔۔ سر کا سائز عام بچوں سے بڑا۔ ایک آخری کوشش کے طور پر الیاس نے اس بچوں کے ماہر ڈاکٹر کو دکھایا مگر وہاں بھی مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا۔

حمزہ کی پیدائش عروسہ اور الیاس کے لئے طویل جدو جہد کا آغاز ثابت ہوئی۔ آئے دن اسپتالوں کے چکر۔۔ سر کا آپریشن۔۔ آئے دن دماغ سے پانی نکلوانا، کمر کا آپریشن۔۔ اور نتیجہ وہ ہی بےجان دھڑ، بڑا طویل سفر تھا۔

جس بچے کے لئے ڈاکٹر پیش گوئی کی تھی کہ دو چار دن ہی جی پائے گا وہ اب اٹھارہ سال کا ہو چکا تھا۔ عروسہ وقت سے پہلے بوڑھی ہو چکی تھی۔ الیاس کے کندھے جھک گئے تھے۔ بچے کی خدمت کرتے کرتے ان کی ہڈیاں گلنے لگیں۔

زندگی جیسے تیسے گزر ہی رہی تھی کہ اچانک سیلاب کا خطرہ منڈلانے لگا۔ ہر طرف سرا سیمگی پھیل گئی۔ غریبو کی بستی تھی۔ پہلے کی مہنگائی کے سیلاب کی زد میں تھی۔ زندگی بھر کی پونجی داؤ پر لگ گئی تھی۔

الیاس دہری مشکل کا شکار تھا۔ لوگوں کو صرف سامان اٹھانا تھا مگرالیاس کو حمزہ کو بھی اٹھانا تھا۔ اٹھارہ سال کا جوان مرد۔۔ جو باپ کا سہارا بنتا۔۔ مگر قدرت نے اس کو باپ کے لئے بوجھ بنا دیا تھا۔

الیاس کے دل میں غصہ کی لہر اٹھی۔ "اس کے ہم عمر بچے باپ کے شانے سے شانہ ملائے کھڑے ہیں۔۔ اور مجھے اس کو بھی ڈھونا ہے۔۔ "

گھر کا ساز و سامان دور رہنے والے رشتہ داروں کے گھر میں منتقل کر دیا گیا۔ مگر گھر کہاں اٹھا لے جاتے؟

عروسہ ہر کمرے میں جاتی۔۔ ہر دیوار کا معائنہ کرتی۔۔ کبھی چھتوں کو تکنے لگتی۔ "الیاس۔۔ سامان تو ہٹا دیا مگر گھر کا کیا ہوگا؟ کیا یہ سیلاب کو جھیل پائے گا؟ ہم کیسے یہ سب دوبارہ بنائیں گے؟"

کوئی نہیں جانتا تھا کہ جب وہ واپس آئیں گے تو یہاں گھر موجود ملے گا یا ملبے کا ڈھیر ہوگا۔ پریشانی الیاس کے حواس پر سوار ہو رہی تھی۔ دکان اور مکان دونوں خطرے میں تھے۔

نہ گھر رہے گا۔۔ نہ روزگار۔۔ زندگی کی گاڑی کیسے کھینچوں گا۔۔ جبکہ اس گاڑی میں حمزہ ایک مستقل بوجھ کی صورت میں موجود تھا

تینوں بچیاں جوان ہو چکی تھیں۔ عروسہ نے تن پیٹ کاٹ کر کچھ سامانِ جہیز جوڑ لیا تھا۔ بڑی کی شادی کے لئے بہت تھوڑی جمع پونجی بھی جمع کر لی تھی۔۔ مگر اب تو سب بر باد ہونے والا تھا۔

یہ گھر ہی کل اثاثہ تھا۔ یہ بھی چلا گیا تو زندگی صفر سے شروع ہو گی۔ عروسہ کے آنسو نہ تھمتے تھے۔

"یا اللہ اب کیا ہوگا؟ یہ سب برداد ہو جائے گا۔۔ ہم جوان بچیوں اور معذور بیٹے کے ساتھ کہاں جائیں گے؟ ہمیں تو کوئی اپنے گھرمیں رکھے گا بھی نہیں۔۔ سب حمزہ سے گھن کھائیں گے۔۔ "

الیاس کی ہمت اب جواب دے چکی تھی۔

"کیا کیا کروں گا؟ نئے سرے سے روزگار شروع کروں گا۔۔ گھر بناؤں گا۔۔ بیٹیوں کی شادیاں کروں گا۔۔ یا حمزہ کے پیمپر بدلتا رہوں گا؟ ایک جنگ تھی جو اس کے اندر چھڑی ہوئی تھی۔

وہ جب جب حمزہ کو دیکھتا اس کے دل میں ایک شدید غم و غصے کی لہر اٹھتی۔ "لوگوں کو صحت مند جوان بیٹے مر جاتے ہیں۔۔ اور ایک یہ ہے۔۔ بستر پر پڑا ہے۔۔ زخم بن رہے ہیں۔۔ گندگی پھیلا رہا ہے۔۔ مگر مر نہیں رہا۔۔ "

سیلاب کا خوف اس کے دل سے باپ کی محبت بہا لے گیا تھا۔ تنہا ساری عمر سارا بوجھ اٹھایا تھا۔ صرف معاش کا ہی نہیں۔۔ جوان بیٹے کی معذوری کا بھی۔۔ اب ایک قدم اٹھانا مشکل لگ رہا تھا۔

بڑی سوچ بچار کے بعد ایک رات الیاس نے کہا "عروسہ۔۔ تم بچیوں کو لے کر میکے چلی جاؤ۔۔ میں یہاں رک جاتا ہوں۔۔ دکان کا سامان بھی ہٹانا ہے۔۔ کچھ پیسوں کا بندوبست بھی کرنا ہے۔۔ "

ممتا کی ماری عروسہ کو سب سے زیادہ فکر اپنے بیٹے کی تھی۔ فکر مندی سے بولی "اور حمزہ؟ میں اکیلی اس کو نہیں لے جاسکتی۔۔ "

الیاس کے منہ میں زہر سا کھل گیا "ہاں اس کو تم اکیلی نہیں لے جا سکتیں۔۔ اس کو تو مجھے اٹھانا ہوگا۔۔ تم بچیوں کے ساتھ چلی جاؤ۔۔ میں دو چار دن میں حمزہ کو لے کر آ جاؤ گا۔۔ " پھر اگلی صبح عروسہ نے الوداعی نظر گھر پر ڈالی۔

حمزہ کو پیار سے گلے لگاتے ہوئے وہ رو پڑی۔۔ یوں بھی حمزہ کے بعد سے اس کی آنکھیں ہر وقت نم ہی رہتی تھیں۔

"الیاس۔۔ اس کا خیال رکھنا۔۔ " نجانے اس کا دل کیوں بھر بھر کر آ رہا تھا۔

الیاس بےزاری سے بولا "ہاں ہاں۔۔ رکھ لوں گا خیال۔۔ مجھے اور کام ہی کیا ہے۔۔ بس اس کا خیال رکھنے کے لئے ہی جی رہا ہوں۔۔ "

عروسہ نم آنکھوں سے رخصت ہو گئی۔ گھر میں الیاس اور حمزہ رہ گئے۔ بلکہ الیاس ہی رہ گیا، حمزہ کو تو ہونا نہ ہونا برابر ہی تھا۔

کئی دن گزر گئے۔ عروسہ فون کر کے پوچھتی رہی۔

"کب آؤ گے؟"

الیاس ایک ہی جواب دیتا رہا "بس کل یا پرسوں آ رہا ہوں۔۔ "

محلے کے لوگ کہتے رہے "الیاس۔۔ تم کب جاؤ گے؟"

الیاس سب کو ایک ہی جواب دیتا رہا۔ دکان کا مال بھی ساتھ ہی لے کرجانا۔۔ گاڑی کا انتظام کر رہا ہوں۔۔ بس کل یا پرسوں نکل جاؤں گا"۔

رفتہ رفتہ پورا علاقہ خالی ہو گیا۔ الیاس کی نہ کل آئی نہ ہی پر سوں ہوئی۔۔ سیلاب کی آخری اطلاع موصول ہوتے ہی الیاس نے اپنا چھوٹا سا بیگ کاندھے پر ڈالا۔

ایک نظر چار پائی پر پڑے حمزہ کو دیکھا۔ لمحے بھر کو اس کا دل لرزا۔۔ ایک خیال دل کو تڑپا گیا۔۔ "یہ تو پانی سے بھاگ بھی نہیں پائے گا۔۔ "

مگر حمزہ کو اٹھاتے بٹھاتےاس کے کندھے دکھ چکے تھے۔ پیمپر بدلتے بدلتے اس کی کمر ٹوٹ چکی تھی۔ اس کی آئے دن کی بیماری اور دواؤں کے خرچ نے الیاس کو دوالیہ کر دیا تھا، دماغ نے دل کو ڈانٹ پر چپ کرادیا۔ وہ گھر کو تالا لگائے بغیر ہی چلا گیا۔

شائد اس کے لاشعور میں کہیں یہ خیال موجود تھا کہ اندر حمزہ ہے۔۔ کیا پتہ وہ پانی سے بچنے کے لئے بھاگ کھڑا ہو۔۔ کیا پتہ موت سامنے دیکھ کر اس کی بے جان ٹانگوں میں جان لوٹ آئے۔ کیا خبر کوئی اس کو بچا ہی لے۔

وہ اونچے ٹیلے پر کھڑا بستی کی سمت دیکھتا رہا۔ پانی تیزی سے بستی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بڑے بڑے پتھر بہے جا رہے تھے۔۔ دور دور تک پانی ہی پانی تھا۔ پانی تو الیاس کی آنکھوں میں بھی تھا جنہیں اس نے آستین سے صاف کیا اور آگے بڑھ گیا۔

ممتا کی ماری عروسہ بار بار فون کرتی رہی۔ مگرالیاس کا تو نمبر ہی بند جا رہا تھا، اس کی جان سولی پر لٹکی تھی، نہ معذور بیٹے کا کچھ پتہ چل رہا تھا نہ شوہر کا اور الیاس باری باری ہر امدادی کیمپ میں جاتا۔۔ اپنے بیٹے کی تصویر لئے سب سے آگے کھڑا ہوتا ہے۔

"میں لٹ گیا۔۔ میں برباد ہو گیا، سائیں۔۔ ایک ہی بیٹا تھا۔۔ سیلاب میں ڈوب گیا۔۔ گھر۔۔ دکان سب بہہ گئی، بیٹیاں شادی کی عمر میں ہیں۔۔ امداد چاہئے۔۔ سائیں جوان لڑکا تھا۔۔ "

٭٭٭

Check Also

Molana Muhammad Ali Johar

By Rehmat Aziz Khan