Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Selab Kahani, Hamara Karachi

Selab Kahani, Hamara Karachi

سیلاب کہانی، ہمارا کراچی

"میں گھر واپس نہیں جاؤں گا۔۔ " علی بخش نے صاف انکار کر دیا۔

بچل حیران پریشان اپنے نوجوان بیٹے کا منہ دیکھنے لگا۔ بچل کی بیوی منہ میں دوپٹے کا پلو دبائے حیرت سے اپنے بیٹے کو تکنے لگی۔

"مگر بخشو بیٹا۔۔ ہماری زمین۔۔ وہاں ہے"

" کون سی زمین بابا؟ وہ زمین جس کا قرضہ اتارتے اتارتے تو بوڑھا ہو گیا؟" علی بخش ہتھے سے اکھڑ گیا۔

"وہ زمین جس کی سال بھر کی آمدنی وڈیرے کے پاس چلی جاتی تھی اور تو سال بھر وڈیرے سے پیسے مانگتا تھا۔۔ "

بچل نے پھر سے بات شروع کرنے کی کو شش کی۔ "مگر بخشو! وڈیرے کا قرضہ تو اتارنا ہی ہوتا ہے۔۔ وہ تو اپنے پیسے لے گانا۔۔ "

علی بخش نے پھر باپ کی بات کاٹ دی۔ "تو نے وڈیرے سے کتنا پیسہ لیا تھا؟ دس بیس لاکھ؟ صرف پچاس لاکھ۔۔ کیا ہم نسل در نسل وہ قرضہ ادا کرتے رہیں گے؟" بچل کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

٭٭٭

"یہ ہمارا کراچی ہے۔۔ ہمارا شہر ہے۔۔ اور ہم ہی دیوار سے لگ گئے ہیں۔۔ " شاہد نے نہایت غصے سے کہا۔

"ارے کل کی بات ہے۔۔ میں گھرجا رہا تھا۔۔ ایک سرائیکی بندہ میری گاڑی کے سامنے آگیا۔۔ یار گاڑی گرتے گرتے بچی۔۔ اب ان لوگوں کو روڈ وغیرہ کا کوئی سینس نہیں ہوتا۔۔ اچانک سامنے آ جاتے ہیں۔۔ اور چوٹ لگ جائے تو مظلوم بن جاتے ہیں۔۔ " شکیل نے کہا۔

"کراچی کے جرائم کے ذمہ دار بھی یہ غیر مقامی لوگ ہیں۔۔ گاؤں دیہات سے یہاں آ جاتے ہیں۔۔ چوری چکاری کرتے ہیں۔۔ کراچی کا سارا ماحول خراب کر دیا ہے۔۔ انٹر نیشنل لیول کے شہر کو کچرا کنڈی بنا دیا ہے"۔

باقی دوست بھی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔ مگراحمد خاموشی سے سب کی باتیں سنتا رہا۔

٭٭٭

بچل کو آج بھی وہ دن یاد تھا جب وہ وڈیرے کے پاس قرض مانگنے گیا تھا۔

"سائیں فصل کو سنڈی لگ گئی۔۔ کیڑا سب کھا گیا۔۔ ابھی کٹائی میں مہینہ پڑا ہے۔۔ جب تک تو کھیت بالکل صاف ہو جائے گا۔۔ بیج کھاد کسی شے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔۔ سال کیسے گزرے گا۔۔ سائیں کچھ مدد مل جاتی تو۔۔ میں اگلی فصل پر لوٹا دوں گا۔۔ "

وڈیرے نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے سر ہلایا "ہاں ہاں بچل۔۔ باباہم کس لئے بیٹھے ہیں۔۔ فکر ہی نہ کر۔۔ بتا کتنے پیسے چاہئے؟"

بچل ایک لاکھ کا قرضہ مانگنے گیا تھا اگرچہ اس کو ایک لاکھ تک گنتی نہیں آتی ہے۔۔ مگر اس کے چھوٹے منہ سے بڑی بات نہیں نکل پائی۔

"ساٹھ ہزار۔۔ مل جاتے۔۔ تو۔۔ " وہ ڈر ڈر کر اتنا ہی بول پایا۔

وڈیرہ زیر لب مسکرا دیا۔ اس نے جیب میں سے ربن کا سن گلاسز نکال کر صاف کئے جن کی قیمت ڈیڑھ لاکھ تھی۔

"بابا۔۔ بچل۔۔ پتہ بھی ہے ساٹھ ہزار کتنے ہوتے ہیں؟ بچل گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے ڈر رہا ہو کہ کہیں وڈیرہ اس سے گنتی نہ سن لے۔

"سائیں۔۔ جانتا ہوں بڑی رقم ہے۔۔ مگر سائیں گھر کی چھت بھی گر رہی ہے۔۔ وہ بھی ٹھیک کرانی ہے۔۔ سائیں خرچہ تو ہو جاتا ہے۔۔ میں فصل کے فصل دیتا رہوں گا۔۔ "

وڈیرہ نے کم دار کو آواز دی "کم دار بابا کاغذ تیار کر واؤ۔۔ کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا ہمارے پاس سے۔۔ "

ذرا دیر بعد ہاتھ سے لکھا ایک کاغذ بچل کے سامنے آگیا۔ ان پڑھ بچل کبھی نہ جان پایا کہ کاغذ پر لکھی رقم کا سود اصل رقم کے برابر ہی ہے اور یہ رقم اس کو اپنی زمین گروی رکھ کر ملی ہے۔

کمدار نے بچل کا انگوٹھا انک سے رنگین کرکے کاغذ پر ثبت کر دیا اور وڈیرے نے ساٹھ ہزار بچل کو تھما دئے اور کہا۔ "بچل بابا گن لو۔۔ بھول چوک نہ ہو۔۔ "

بچل نے زندگی میں پہلی بار یک مشت اتنی رقم دیکھی تھی اور اتنی لمبی گنتی اس کو آتی بھی نہیں تھی۔ وہ دانت نکال کر بولا "سائیں آپ نے دئیے ہیں۔۔ کم نہیں ہوسکتے۔۔ "

بچل نے پیسے اپنے گندے سے انگوچھے میں لپٹے اور بغل میں دبا لئے۔

وڈیرہ بولا "بچل۔۔ میں نہیں چاہتا کہ تم پر ایک دم بوجھ پڑے اس لئے اب تم ہر فصل پر مجھے تھوڑےتھوڑے پیسے دیتے رہنا۔۔ "

بچل احساس شکر گزاری سے نم دیدہ ہو گیا اس نے۔ وڈیرے کے پیر چھوئے اور گھر کی طرف چل پڑا۔۔ رقم ملنے کی وقتی خوشی میں تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے غلامی کے کس طوق کو اپنے گلے میں ڈال لیا تھا۔

سالوں گزر گئے۔۔ زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے سے حاصل ہونے والی محدود آمدنی کا ایک بڑا حصہ وڈیرے کے پاس جانے لگا۔ کمدار ہر فصل پر کاغذ لے کر موجود ہوتا۔ قرض ادا کر کر کے بچل جوانی میں ہی بوڑھا ہو گیا۔ اس کو بیٹا علی بخش بچپن سے یہ سب دیکھتا آ رہا تھا۔ وہ اکثر پوچھتا "بابا آخر تونے وڈیرے سے کتنے پیسے لئے تھے؟ ساری زندگی ادا کرتے گزر گئی۔۔ ساٹھ ہزار ادا ہی نہیں ہو رہے۔۔ "

بچل بولا "ارے چری۔۔ ساٹھ ہزار تو ایک دم لئے تھے۔۔ باقی قسطیں چڑھتی رہیں۔۔ کبھی دے پایا۔۔ کبھی نہیں دے پایا۔۔ پھر تیری دادای کے علاج کے لئے پانچ ہزار لئے۔۔ "

بخشو مایوس ہو کر کہتا "بابا۔۔ یہ قرضہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔۔ "

٭٭٭

زندگی گرتی پڑتی گزر رہی تھی۔ سال بھر کی محنت کے بعد بہت تھوڑے پیسے ہاتھ آتے۔ فاقہ کشی میں دن گزر رہے تھے۔ بارشیں شروع ہوئیں تو کسان کی خوشی کا سامان پیدا ہوا۔ فصلیں لہرانے لگیں۔ کھیت ہرے بھرے ہو گئے۔ مگر جب بارشیں مسلسل ہونے لگیں تو نظریں آسمان کی طرف اٹھنے لگیں۔

"یا اللہ۔۔ فصل ڈوب جائے گی۔۔ " ٹپکتی چھتیں گرنے کے درپے ہو گئیں۔ مگر بارش نہیں رکی۔

حکومت نے سیلاب کی وارننگ جاری کر دی۔ کوئی جائے پناہ نہ بچی۔۔ زمین سے پہلے ہی کون سے آمدنی تھی۔۔ رہی سہی بھی بارشوں کی نذر ہو گئی۔۔ فاقہ جب جان لینے لگا تو بچل بھی دیگر لوگوں کی طرح اپنے پانچ بچوں سمیت کراچی آ گیا کہ اس شہر نے ہمیشہ ہر تھکے ماندے درماں کو اپنی بانہوں میں سمیٹا ہے۔

بخشو سب سے زیادہ خوش تھا۔ اس نے کراچی کے بارے میں بہت سنا تھا۔ اور جیسا سنا تھا اس بھی بڑھ کر پایا۔ لوگ ہی لوگ، سیلاب زدگان کے کیمپ میں سر جھکانے کی جگہ تو مل گئی مگراتنے لوگوں کا کھانا پینا بھی آسان کام نہ تھا۔

اگلے ہی دن بچل بخشو اور اس کے دو بھائی مل کر محنت مزدوری پر نکل کھڑے ہوئے۔۔ دن بھر منڈی میں سامان ڈھونے کے بعد جب پہلی پگار ملی تو بخشو کے لئے ایک خوشگوار حیرت کا سامان لائی۔

"بابا۔۔ اس پگار میں سے ہمیں کسی کو کچھ نہیں دینا۔۔ یہ پیسے ہمارے ہیں۔۔ " بچل بھی خوش تھا۔

"چلو۔۔ جتنے دن یہاں رہیں گے۔۔ کچھ پیسے جوڑ لیں گے۔۔ واپس جا کر زمین پر لگائیں گے۔۔ " بچل نے کہا مگر بخشو کے جواب میں کچھ بھی نہ کہا۔۔ وہ کسی سوچ میں گم ہو گیا۔ سیلاب کی اطاعات ملتی رہیں۔

پانی اتر چکا تھا مگر پیچھے تباہی چھوڑ گیا تھا، زمینیں ڈوب چکی تھیں۔۔ فصلیں مویشی بہہ چکے تھے۔۔ زمین دلدل بن چکی تھی۔ مگر لوگ واپس جانا چاہتے تھے۔

زمین تو ماں ہوتی ہے۔۔ شان اور مان ہوتی ہے۔۔ اس کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔ مگر بخشو واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ بچل کے لئے یہ بات ناقابل یقین تھی۔

"ارے چری۔۔ کوئی اپنی زمین بھی چھوڑتا ہے۔۔ زمین تو ماں ہے۔۔ "، مگر بخشو چھوڑ چکا تھا۔

٭٭٭

"سالے تم اپنے علاقے چھوڑ کر کراچی میں گھس جاتے ہو۔۔ " غصے کے مارے ضیا کا برا حال تھا۔ وہ اس غیر مقامی نظر آنے والے نوجوان کا گریبان تھامے کھڑا تھا۔ احمد نے بمشکل ضیا کے ہاتھ سے گریبان چھڑوایا۔

"یار۔۔ تو نے روک لیا۔۔ ورنہ آج ایک غیر مقامی تو کم ہو ہی جاتا کراچی سے۔۔ " احمد ضیا کو لے کر ایک چائے کے ڈھابے پر بیٹھ گیاتھا۔

"اب دیکھ۔۔ یہ چائے والا۔۔ پٹھان ہے۔۔ کراچی کا اصلی رہنے والا بے روزگار ہے اور یہ یہاں دکان کھول کر بیٹھا ہے۔۔ "ضیا کا غصہ کسی طور کم نہ ہوا۔ احمد نے سنجیدگی سے کہا۔

"ضیا کیا اس مسئلہ کا یہی حل ہے کہ غیر مقامی لوگوں کو قتل کر دیا جائے؟"

اور یہ غیر مقامی ہیں کون؟ وہ مجبور بے بس لوگ جو فاقوں سے تنگ آ کر یہاں آئے۔۔ کراچی ان کی آخری امید ہے، فاقہ کشی کی موت سے بچنے کا آخری راستہ ہے۔۔ یہاں نہ آئیں تو کہاں جائیں پھر۔۔ " ضیا کا غصہ ٹھنڈا پڑنے لگا۔

احمد پر خیال انداز میں بولا "ان غیر مقامی لوگوں کو مارنا نہیں ہے۔۔ ان سے نفرت نہیں کرنی۔۔ ان کی مدد سے کراچی کو ترقی دینی ہے۔۔ یہ وہ افرادی قوت ہے جو اس شہر کی قسمت بدل سکتی ہے۔۔ "

٭٭٭

واپسی کا سامان باندھا جا چکا تھا۔ مگر اس سامان میں بخشو کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ماں دوپٹے میں منہ چھپا کر رو رہی تھی بخشو اس کی سب سے بڑی اولاد تھا۔ اس کی محبت سب سے سوا تھی۔۔ ڈھیروں ارمان تھے۔۔

باپ خفگی لئے بیٹھا تھا۔۔ سب سے بڑا بیٹا ہے۔۔ زمین کا وارث ہے۔۔ بچل نے ہمیشہ یہ ہی سوچا تھا کہ وہ ساتھ مل کر کھیت کھلیان میں کام کرے گا، مگر بخشو کا فیصلہ اٹل تھا "میں واپس نہیں جاؤں گا۔۔ "

بچل اٹھ کھڑا ہوا۔ "جس کو نہیں جانا وہ نہ جائے۔۔ میں اپنی زمین نہیں چھوڑ سکتا۔۔ "

بیوی کا فرض ماں کی محبت پر سبقت حاصل لے گیا۔۔ وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور قافلہ اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔

٭٭٭

آج انھوں نے اپنے ایک اور ورکشاپ کا آغاز کردیا۔ احمد، ضیا اور دیگر دوستوں کی بنائی ہوئی یہ تنظیم "ہمارا کراچی" غیرمقامی لوگوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اٹھا چکی تھی۔ کراچی کا نوجوان تنگ نظر یا متعصب نہیں تھا۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ملک پر کوئی مشکل آئی سب سے زیادہ امداد کراچی سے ہی گئی، اس بار احمد اور ضیا نے مدد کا انداز بدل دیا- ان کا خیال تھا کہ کراچی کو تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت ہے۔ ہوٹل کے بیرے، چائے بنانے والے، موچی، مزدور، ٹھیلے والے، مکینک کی دکانوں کے چھوٹے اور تو اور کچرا چننے والے سب کے سب پڑھ رہے تھے- "ہمارا کراچی" کی تنظیم میں اب ہزاروں بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

ساتھ ساتھ چھٹی والے دن ایک دوسرے کو اپنا ہنر بھی سکھا رہے تھے۔ ورکشاپ کے چھوٹے ہوٹل کے بیروں کو موٹر سائیکل مرمت کرنا، موچی مزدوروں کو جوتے ٹھیک کرنا، سبزی فروش کچرا چننے والوں کو سبزی تازہ رکھنے کا ہنر۔۔ غرض ہر شخص کسی دن استاد تھا اور کسی دن شاگرد، ہنر اور تعلیم کے مواقع مقامی و غیر مقامی کی تفریق کئے بغیر بڑھتے جا رہے تھے۔۔

بخشو بھی اب "ہمارا کراچی" کا حصہ ہے جہاں وہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ مکینک کا کام بھی سیکھ رہا ہے۔۔ اور ہاں وہ کئی سبزی بیچنے والوں کو کچھ سبزیاں اگانا بھی سکھا رہا تھا۔ جو اپنی دکانوں کے ساتھ گملوں میں سبزیاں اگا کر انہیں organic veggies کے طور پر بیچ رہے تھے۔۔

٭٭٭

Check Also

Samajhdar Hukumran

By Muhammad Zeashan Butt