Selab Kahani, Farishte
سیلاب کہانی: فرشتے
"ابا! مدد آ گئی ہے۔۔ " راحت گھر کے اندر بھاگا۔
مہر پور کے مین روڈ پر امدادی تنظیم کی بڑی سی گاڑی اور ایک جیپ آ کر رکی۔ کئی جوان مرد گاڑی اور جیپ سے اترے۔ سب نے اپنی تنظیم کے مونو گرام والی شرٹس پہنی ہو ئی تھیں۔
مہر پور کے سب لوگ باہر نکل آئے۔ تنظیم کے لیڈر نے سب کو تسلی دی "گھبراؤ نہیں۔۔ ہم سب مل کر اس مشکل گھڑی کا مقابلہ کریں گے۔۔ آپ تنہا نہیں ہیں۔۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔۔ ہم آپ کو محفوظ مقام تک پہنچا دیں گے۔ "
لیڈر کی پر جوش تقریر سن کر لوگوں کے افسردہ چہروں پر کوئی رمق نہ آئی۔
ایک عورت آنکھوں میں آنسو لئےبولی "آپ ہمیں محفوظ مقام تک پہنچا دیں گے مگر ہمارے گھر۔۔ ہمارا ساز و سامان۔۔ زندگی بھر کی کمائی۔۔ اس کا کیا ہوگا؟ یہ سب بہہ جائے گا۔۔ ہم خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔۔ "
کئی عورتوں نے ایک ساتھ رونا شروع کر دیا۔ ٹیم لیڈر نے آگے بڑھ کر اس عورت کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا "سامان کا بھی کچھ نہ کچھ بندوبست ہو جائے گا۔۔ آپ سب اپنا زیور اور پیسے وغیرہ اپنے ساتھ باندھ لیں۔۔ بڑا اور بھاری سامان ہم سب مل کر گھر کی اوپری منزلوں پر منتقل کر دیتے ہیں۔۔ یہاں شدید سیلاب کی توقع نہیں ہے مگر پانی بہت بھرے گا۔۔ ایک ایک منزل ڈوبنے کا امکان ہے۔۔ ہم اپنی سی کوشش کر لیتے ہیں۔۔ باقی سب اللہ کے سپرد ہے"۔ لوگ اب بھی ناخوش تھے۔
مہر پور ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔ زیادہ تر لوگ غریب ہی تھے۔ کچھ ہی لوگوں کے گھر ایک سے زیادہ منزلوں پر مشتمل تھے اور وہ سب پہلے ہی اپنا سامان اوپر منتقل کر چکے تھے۔
لیڈر نے گھوم پھر کر جائزہ لیا اور ڈبل اسٹوری گھروں کے مالکان سے بات چیت شروع کی۔ "بھائی! پہلے ہی اتنا سامان اوپر رکھ دیا ہے۔۔ نیچے سب پانی پانی ہوگا۔۔ اوپر اتنا وزن۔۔ گھر گر جائے گا۔۔ نہ بابا نہ۔۔ مجھے اپنا گھر نہیں گرانا۔۔ " حمید کے ساتھ ساتھ اور کئی لوگوں نے تو صاف انکار کردیا۔
لیڈر کمر پر ہاتھ رکھے بے بس سا کھڑا تھا۔ اس نے لوگوں کا ضمیر جگانے کی کوشش کی۔ "بھائیو! یہ مشکل وقت ہے۔۔ ایسے ہی وقت میں انسانیت کا امتحان لیا جاتا ہے۔۔ کل قیامت میں اللہ کو کیا منہ دکھاؤ گے۔۔ یہ سب آپ کے ہمسائے ہیں اور ہمسائے تو ماں جائے ہوتے ہیں۔۔ بلکہ ہم ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔۔ ہم آپ کی مدد کے لئے گھروں سے نکلے ہوئے ہیں۔۔ مگرآپ لوگ کو دوسرے کی مدد نہیں کر رہے۔۔ آپ ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیں گے تو کون دے گا۔۔ خدارا! اپنے زندگی بھر کے ساتھیوں کے لئے تھوڑی تھوڑی جگہ سب نکال لیں۔۔ "
قریب کھڑی زینت نے اپنی جواں سال بیٹی ماہ نور کو گلے لگا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ "ہائے میری بچی کا جہیز! کیسی مشکل سے جمع کیا ہے۔۔ پائی پائی جوڑی تھی۔۔ کتنے ارمان جڑے ہیں میری بچی کے۔۔ چند ماہ میں شادی طے ہے۔۔ یا اللہ! اب کیا کریں گے۔۔ سب سیلاب میں بہہ گیا تو دوبارہ کیسے جوڑیں گے۔۔ خدا کا واسطہ کوئی تو اس کا سامان رکھ لو۔۔ "
ٹیم لیڈر نے ماہ نور کا بازو پکڑ کر مہر پور کے لوگوں کے سامنےکر دیا اور سب کو مخاطب کر کے کہا "کیا یہ آپ کی بیٹی نہیں ہے؟ کیا اس کا بچپن آپ کے گھروں میں کھیلتے نہیں گزرا؟ دیکھو اس کو۔۔ تم سب کی بہنوں اور بیٹیوں کی شبیہ ہے اس میں۔۔ کیا آپ سب کے گھروں میں اتنی بھی جگہ نہیں کہ اس بچی کا تھوڑا تھوڑا سامان سب رکھ لیں؟"
سب کے سر جھک گئے۔ ماہ نور کی آنکھوں کے پانی نے سیلاب سے پہلے ہی سب کو عرق ندامت میں ڈبو دیا۔ حارث کو اپنی بیٹی رخسانہ اور ماہ نور کا بچپن یاد آ گیا۔۔ دونوں سارا دن گھر آنگن میں کھیلتی تھیں۔ ماہ نور اپنے گھر سے رخسانہ کے لئے چاول لاتی اور رخسانہ کے گھر سے ماہ نور کے لئے حلوہ ضرور جاتا تھا۔
خود حارث کی ماہ نور کے باپ سے بڑی اچھی دوستی تھی۔ کئی مواقع ایسے آئے جب ماہ نور کا باپ حارث کے سگے بھایئوں سے بھی پہلے اس کی مدد کو پہنچا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر ماہ نورکے سر پر ہاتھ رکھا اور رقت آمیز آواز میں کہا "نہ رو۔۔ میری بیٹی۔۔ میں اپنے گھر میں تیرا سامان رکھ لوں گا۔۔ " ماہ نور روتے روتے مسکرا اٹھی۔ زینت کو نئی زندگی مل گئی۔
باقی سب کو بھی کچھ احساس ہوا اور وہ بھی اپنے گھروں میں مزید کچھ سامان رکھنے پر راضی ہو گئے۔ چہروں پر کچھ بحالی آئی۔ لوگوں نے زیور اور نقدی اپنے ساتھ لی اور یوں مہر پور کے سارے باسی امدادی تنظیم کی بند گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ہر کسی کی نظریں اپنے گھروں کو تک رہی تھیں۔
تنظیم کے ارکان نے ان کو نہایت ہمدردی اور محبت سے تسلی دی۔ پانی کا بڑا سا کولر اور پلاسٹک کے کئی گلاس انھیں دیئے، گاڑی کے دروازے بند کر دیئے۔ کچھ ارکان آگے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گئے اور کچھ اپنے لیڈر کے ساتھ اس کی جیپ میں سوار ہو گئے۔
لوگ گاڑی کے شیشوں میں سے اپنے گھروں کو دور جاتا دیکھتے رہے۔
دل تڑپ رہے تھے، ہر لب پر ایک ہی دعا تھی، یا اللہ رحم کرنا!
اللہ تو ہے ہی رحیم، مگر اس کے بندے، وہ بڑے ظالم ہیں، خود اس کے قہر کو آواز دیتے ہیں، گاڑی کافی دور تک چلی۔
لوگ کچھ دیر ایک دوسرے سے بولے پھر تھک ہار کر چپ ہو گئے۔ پیاس بجھانے کے لئے پانی تو تھا مگر بھوک مٹانے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ لوگ پانی ہی پیتے رہے۔ رات ہو چکی تھی۔ گاڑی کے جھٹکے اور ہچکولے بتا رہے تھے کہ گاڑی کچی اور اونچی نیچی راہ گزر پر گامزن ہے۔ اکثر لوگ گہری نیند میں جا چکے تھے۔ کچھ ہی تھے جو جاگنے کی کوشش میں خود کو ہلکان کر رہے تھے۔ ان ہی میں شبیر بھی تھا۔
اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا، درخت اور جھاڑیاں ہی نظر آئیں۔
وہ باہر دیکھ کر اندازہ کرنے کی کوشش کر رہاتھا کہ گاڑی کس سمت میں جا رہی ہے۔ مگر باہر اتنا اندھیرا تھا کہ کچھ سجھائی نہ دیا۔ خود اس کا ذہن نیند کے جھولے میں بیٹھا ہچکولے لے رہا تھا۔۔ آنکھیں بند ہو ئی جا رہی تھیں۔۔ مگر دماغ کسی انہونی کی اطلاع دے کر اسے جگائے ہوئے تھا۔ تقریباً سب بے ہوشی کی نیند میں تھے۔
اچانک گاڑی رک گئی۔ شبیر نے بمشکل آنکھیں کھولیں۔ تنظیم کا لیڈر اپنے ساتھیوں سمیت گاڑی میں داخل ہو چکا تھا۔ کچھ ارکان کے ہاتھوں میں پستولیں تھیں۔ اب شبیر کی آنکھیں مکمل طور بند ہو چکی تھیں۔
تنظیم کے ارکان نے بے ہوش افراد کو اٹھا اٹھا کر باہر زمین پر لٹا دیا۔ مدد گار کے روپ میں آنے والے مہر پور کے لوگوں کا تمام اثاثہ لے کر فرار ہو گئے۔
لوگ اگلی صبح ہوش میں آئے تو ان کی دنیا اندھیر ہو چکی تھی۔ جن کو وہ اپنا نجات دہندہ سمجھے وہ لٹیرے نکلے۔ نجانے کون سی جگہ تھی۔ سمت کا کوئی اندازہ نہ تھا۔ لوگ سرا سیما ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ عورتیں بین کر رہی تھیں۔
بھوک پیاس اور صدمے سے نیم جان لوگ دو دن تک اسی مقام پر مددکے منتظر رہے۔ ایک صبح سیلاب کی کوریج کرنے والے ہیلی کاپٹر نے انھیں دیکھا اور اس بیابان سے نکالا۔ ان میں سے کئی نیم مردہ ہو چکے تھے۔
کمزور خواتین نیم بے ہوش تھیں، بچے جاں بہ لب تھے۔ لوگوں کو ہسپتال اور کیمپ میں پہنچایا گیا۔
ہر شخص ایک ہی سوال کرتا تھا، "کیا ہوا تھا؟ کیسے ہوا تھا؟ کون تھے وہ؟
مگر مہر پور کے باسیوں کی زبانیں تو گنگ چکی تھی، الفاظ گم ہو چکے تھے، خود پر سے بھی اعتبار اٹھ چکا تھا۔ مہر پور کے باسیوں نے کئی دن کیمپ میں گزارے۔ سیلاب کی خبریں سنتے رہے ان کے دل انجانے خوف سے لزرتے تھے۔
چہروں پر ایسی ویرانی اور وحشت تھی کہ دیکھنے والوں کو خوف آ تا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ پانی اتر گیا۔ لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے لگے۔ کیمپ میں صرف مہر پور کے لوگ ہی بچے تھے۔
کسی میں ہمت نہ تھی کہ خالی ہاتھ واپس جائیں، ایک ہی سوال سب کے ذہنوں میں تھا "وہاں کیا ہوا ہوگا؟ کیا وہاں کچھ بچا ہواگا؟ کہیں تنظیم کے لوگ ان کے پیچھے سامان کا صفایا تو نہیں کر گئے ہو گے۔
نیا وسوسہ لوگوں کا خون پی رہا تھا۔ چہرے ذرد ہو چکے تھے، کسی میں اس سمت جانے کی ہمت نہ تھی۔ مگر جانا تو تھا۔
مہر پور کے باسی بھی گھروں کو لوٹ گئے۔۔ مگر وہاں ان کے خدشات بھوتوں کا لبادہ اوڑ کر ان کے منتظر تھے۔ تالے ٹوٹے ہوئے تھے، قیمتی سامان ندارد تھا۔ ماہ نور کے جہیز کا سب سامان لوٹ لیا گیا تھا۔
لوگ سر میں خاک ڈالنے لگے۔۔ اتنے دن کی چپ کو یک لخت آواز مل گئی، نالہ و فریاد آسمان کو چھونے لگے۔
"یا اللہ یہ کیا ہوا، الٰہی۔۔ یہ کیوں ہوا، اے سیلاب!ایک بار پھر آ، ہمیں بھی ساتھ لے جا، یا اللہ ایک اور سیلاب بھیج، یا خدا اس دنیا کو عرق کر دے۔۔ "
قدرت کی طرف سے بھیجا گیا سیلاب تو گزر گیا مگر مظلوموں کے آنسو کا سیلاب ایک اور عذابِ خدا وندی کو بلا رہاتھا۔
٭٭٭