Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Selab Kahani, Darya Ki Muhabbat

Selab Kahani, Darya Ki Muhabbat

سیلاب کہانی: دریا کی محبت

حجلہ عروسی سرخ گلابوں سے دہک رہا تھا۔ لباس عروس میں مریم بھی جچ رہی تھی۔ وجاہت سامنے بیٹھا اس والہانہ انداز میں تک رہا تھا"مجھے یقین نہیں آ رہا۔۔ مریم۔۔ ہم ایک ہو گئے۔۔ میں تمہیں پا لیا۔۔ قسم سے۔۔ اب تک مجھے یقین نہیں آ رہا۔۔ "

مریم کی ہنسی کا جل ترنگ بج اٹھا "کر لو یقین۔۔ ہم کامیاب ہو گئے ہیں۔۔ "

٭٭٭

مریم اور وجاہت کی محبت کی کہانی ایک روایتی کہانی تھی جس کا انجام تھوڑا مختلف ہوا۔ ان میں کوئی بھی بات یکساں نہ تھی، مریم عام سی شکل کی عام سی لڑکی اور وجاہت اپنے نام کی طرح مردانہ وجاہت کا نمونہ، مگر حسن تو دیکھنے والی کی نگاہ میں ہوتا ہے۔

مریم کا باپ یونیورسٹی کے اسی آفس میں چپڑاسی جس آفس میں وجاہت کے پروفیسر باپ کا دفتر بھی موجودتھا۔ مگر مال و دولت محبت کے پلڑے میں ہمیشہ ہی ارزاں رہے ہیں۔

وجاہت کو نجانے مریم میں کیا نظر آیا۔ اس کی دن کا چین رات کی نیند سب رخصت ہو گئے۔ جب اس نے مریم سے اپنی جذبات کا اظہار کیا تو وہ منہ کھولے اسے دیکھتی رہ گئی۔

کلاس میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین، طرح دار اور امیر لڑکی موجود تھی اوروجاہت ان میں کئی کا کرش تھا۔ کلاس میں اس کی آمد پر کئی آنکھیں چمکنے لگتیں۔ کہیں سے دبی دبی ہنسی اٹھی تو کہیں سے بے آواز آہ۔

مگر اس سب میں مریم کہیں نہ تھی وہ تو ان کلاس میں بیٹھی ہوئی کسی کو نظر بھی نہیں آتی تھی۔ مریم کو نظر آنے کی چاہ بھی نہیں تھی۔ اپنی اوقات خوب پہچانتی تھی۔

٭٭٭

"تصور کرو۔۔ سوچو۔۔ سرخ چھتیں۔۔ بڑی سے سفید عمارت، چاروں طرف سرسبز لان اور لان سے آگے عمارت، اور چاروں طرف بہتا دریا۔۔ "

عابد کے چشم تصور میں ہر چیز ایسی واضح تھی جیسے وہ سامنے موجود ہو۔ وہ اپنے دوستوں کو اپنے نئے پراجیکٹ کے بارے میں بتا رہا تھا۔

"ٹورسٹ لوگ اس طرح کی لوکیشن کے دیوانے ہوتے ہیں۔۔ وہ جب یہاں آتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ قدرت کے سارے رنگ کم سے کم وقت میں دیکھ لیں۔۔ اس طرح کے ہوٹلوں کی بڑی ڈیمانڈ ہے۔۔ لوگ ایسی جگہ اسٹے کرنا چاہتے ہیں جہاں انھیں اپنے کمرے کی کھڑکی سے دریا یا جھیل نظر آئے۔۔ یار۔۔ میرا دل کہتا ہے۔۔ میں کامیاب ہوجاؤں گا۔۔ "

عابد بہت پر امید تھا۔ اس کے دوستوں کے بھی حوصلہ افزائی کی سوائے ضمیر کے۔۔ وہ بولا "یار عابد۔۔ چاروں طرف پانی والا آئیڈیا خطر ناک ہے۔۔ یہ قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہے۔۔ جب دریا کا راستہ تنگ ہو جائے گا وہ بپھر جائے گا۔۔ تمہارا نقشہ بہت اچھا ہے مگر اس کی لوکیشن تبدیل کرو۔۔ "

مگر عابد اس کے لئے ہرگز تیار نہ تھا وہ بولا "ضمیر تم نہیں جانتے۔۔ یہ ٹورسٹ لوگ یہاں ایسی ہی جگہوں پر رہنا پسند کرتے ہیں۔۔ اس طرح منظر انھیں رومنیٹک لگتے ہیں۔۔ "

عابد نے جواب دیا "ہاں یہ بھی ایک المیہ ہی ہے کہ یہاں آنے والے ٹورسٹ زمینی حقائق سے نابلد ہوتے ہیں۔۔ انھیں صرف یہاں کی خوبصورتی سے غرض ہے یہاں موجود خطرات کے بارے میں وہ کوئی ریسرچ نہیں کرتے۔۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ذرا سے قدرتی تبدیلی بڑے حادثے میں بدل جاتی ہے۔۔ مگر ہم اس علاقے کے رہنے والے ہیں۔۔ ہم تو یہ سب باتیں جانتے ہیں۔۔ ہمیں ان کو مدنظر رکھنا چاہئے۔۔ "

عابد کو اپنے منصوبے پر ضمیر کی باتیں ناگوار گزر رہی تھیں۔ وہ بولا "اب یہ تو کاروبار کا اصول ہے کہ جو چیز گاہک کو پسند ہو وہی رکھو۔۔ مگر تم کیا جانو کاروبار۔۔ تم کو نوکری پیشہ آدمی ہو۔۔ "

عابد نے ضمیر کی نو سے پانچ والی نوکری پر چوٹ کی۔

"ہاں۔۔ میں نوکری پیشہ ہوں اور نوکری بھی جیالوجی ڈپارٹمنٹ میں کرتا ہوں۔۔ اس لئے کہہ رہا ہو۔۔ دریا کی بھرائی کر کے اس میں تعمیرات کسی دن بڑے سانحے کا سبب بن جائے گا۔۔ جب ہم دریا کے بہاؤ کے بیچ میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے تو کسی نہ کسی دن دریا کو غصہ آ ہی جائے گا۔۔ خیر تمہاری مرضی۔۔ "

عابد کا سوات میں ایک نام تھا۔ اس کے کئی ہوٹل تھے۔ جہاں سے اس کو ٹھیک ٹھاک انکم ہوتی تھی۔ مگر اس کے خواب بہت بڑے تھے، وہ ایک ایسا ہوٹل بنانا چاہتاتھا کہ جہاں لوگ دور دور سے آ کر ٹہریں، جس کا نام ہو، جو سوات کی پہچان بن جائے، جو سب سے مختلف ہو۔

اسے کچھ دن پہلے ہی ایک نئی اسکیم کا پتہ چلا وہ دریا کے ساحل پر تھی۔ اسکیم کی خاص بات یہ تھی کہ ساحل کی بھرائی کر کے اسکیم کو دریا کے اندر تک لے جایا جا رہا تھا۔

اسکیم میں چند ہی پلاٹ تھےاور ان میں سے ایک پلاٹ عابد نے اپنے نام کر لیا تھا۔ وہ ایسی ہی کوئی جگہ چاہتا تھا، اس کے ذہن میں ہوٹل کا پورا نقشہ موجود تھا۔

داخلی دروازے سے لے کر کمروں تک، دروازوں سے لے کر کھڑکیوں کی ڈئزاین تک، ہر منظر اس کی آنکھ میں سمایا ہوا تھا۔ اس کے پاس کافی سرمایہ موجود تھا۔ مزید کے لئے وہ لون لے سکتا تھا۔

جلد ہی اسکیم مکمل ہوئی اور عابد کو پلاٹ کی ملکیت مل گئی۔ اگلے ہی دن سے عابد نے کام شروع کروا دیا۔

٭٭٭

"واٹ؟ کیا کہا تم نے؟" پروفیسر جیلانی کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیاوہ حیرت سے اپنی بیگم شبینہ کو دیکھنے لگے "وجاہت ایک چپڑاسی کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے؟"

"جی ہاں۔۔ اور چپڑاسی بھی آپ کے آفس کا۔۔ "

شبینہ بیگم بیوٹی پارلز کی چین کی مالک تھیں اور شہر کی سرکردہ خاتون تھیں۔ پروفیسر جیلانی کی زوجہ ہونے کے علاوہ بھی ان ایک لگ پہچان تھی۔ مگر اب وجاہت کی وجہ سے انھیں اپنی پہچان خطرے میں پڑتی نظر آ رہی تھی۔

اگلے کئی ماہ مریم اور اس کی فیملی پر کافی سخت رہے۔ پروفیسر نے مریم کے باپ کا جینا حرام کر دیا۔ خود مریم اپنے ہی گھر میں مجرم بن گئی مگر وجاہت اپنی جگہ اٹل تھا۔

٭٭٭

آج عابد کے ہوٹل ہنی مون پیلس کا افتتاح ہو گیا۔

ہنی مون پیلس محض ایک ہوٹل نہیں تھا۔۔ یہ ایک خواب تھا، جس نے عابد کو دن رات سرگرداں رکھا اور اب وہ خواب مجسم عمارت کی شکل میں موجود تھا۔

عابد نے واقعی سوات کو ایک نئی پہچان عطا کر دی تھی۔ تعمیر کے ساتھ ہوٹل کی مارکیٹنگ پر بھی کافی پیسہ خرچ کیا تھا۔

ملک کے بڑے چینلز پر اس کے ہوٹل ہنی مون پیلس کے اشتہار باقاعدگی سے چلتے تھے۔ شوشل میڈیا پر انفلونسرز کو بھی کافی رقم دی تھی اور اب ہر جگہ ہنی مون پیلس کا چرچہ تھا۔ پہلے ہی دن ٹورسٹ کا اتنا رش تھا کہ عابد کی روح سرشار ہو گئی۔

٭٭٭

وجاہت کی ضد کے آگے پروفیسر اور ان کی بیگم کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ مگر انھوں نے واضح کر دیا کہ شادی سادگی سے ہوگی۔۔ ولیمہ کا کوئی اہتمام نہیں ہوگا۔ دونوں نے اپنے اپنے حلقہ سے کسی کو انوائٹ نہ کیا۔

"نونہہ۔۔ ان فقیروں کے ساتھ کسی کو نہیں بلایا جا سکتا۔۔ بس ان ہی کو بلا لو۔۔ نکاح کرو۔۔ بات ختم۔۔ " بیگم شبینہ نے حقارت سے کہا، وجاہت کو کوئی اعتراض نہ تھا۔

یوں آج مریم وجاہت کے کمرے میں دلہن بنی بیٹھی تھی اور ایک گھنٹہ بعد ان کی فلائٹ تھی۔ "ہم ہنی مون پر جا رہے ہیں۔۔ " وجاہت نے سوات کی ٹکٹس مریم کے سامنے رکھیں۔

مریم بھی شادی کے ابتدائی دن اس گھر میں برباد نہیں کرنا چاہتی تھی جہاں ہر آنکھ میں اس کے نفرت اور حقارت تھی۔ وہ بھی خوش ہوگئی۔

ہنی مون پیلس کی خوبصورتی نے مریم کو حیران کر دیا۔ شام کا وقت تھا۔ کئی دن کی بارش نے علاقہ کی خوبصورتی میں اضافہ کر دیا تھا۔

پہاڑوں سے گھرا علاقہ، ہوٹل کے چاروں طرف بہتا دریا۔۔ اورڈوبتا سورج، منظر اتنا مکمل تھا کہ تعریف کی بھی گنجائش نہیں تھی۔

آج ان کی ازدواجی زندگی کی پہلی رات تھی۔ مستقبل کے حسین خواب تھے۔ وجاہت نے تو بچوں کے نام تک سوچ لئے تھے۔ اور مریم حجاب آلود ہنسی کے ساتھ اس کی باتوں کا مذاق اڑا رہی تھی۔

مگر انسان کی پلاننگ بڑی ناقص ہوتی ہے۔ جیسے مکڑی کا گھر۔ رات کا نجانے کون سا پہر تھا، اچانک شور اور بھگڈر مچ گئی۔ دروازے پیٹے جانے لگے۔

سیر و سفر سے تھکے ہوئے لوگ، خوابیدہ ذہنوں کے ساتھ بمشکل اٹھ رہے تھے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے "نکلو۔۔ یہاں سے۔۔ پانی آ رہا ہے۔۔ "

دریا بپھر چکا تھا۔۔ سوتے جاگتے ذہن راستہ تلاش کر رہے تھے۔ ہوٹل میں ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کا کوئی سامان میسر نہ تھا۔

نہ ایمرجنسی کی صورت میں استعمال ہونے والے راستے تھے۔۔ نہ پانی سے بچنے کے لئے لائف جیکٹس۔۔ اور نہ ہی ہیلی کاپٹرز تھے۔ لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو ایک دوسرے کودھکے دیتا باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔

وجاہت نے مریم کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور باہر بھاگا مگر باہر کا راستہ نہ مل سکا۔ اتنی بھگڈر تھی کے لوگ ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے گزر رہے تھے۔ کہیں راستہ نہ تھا۔

ہنی مون پیلس کی عمارت کا آدھے سے زیادہ حصہ زمین بوس ہو گیا۔

" وجاہت۔۔ " مریم چلائی، خاک دھول سے منظر اٹ گیا۔ زمین ہل رہی تھی۔ پانی ہوٹل کی بنیادیں ہلا رہا تھا۔ اور پھر ہوٹل کا فرش اتنا بوجھ برداشت کہ کر سکا اور دریا کی تہہ میں بیٹھتا چلا گیا۔

مریم بھی وجاہت کا ہاتھ تھامے دریا کے سرد پانیوں میں سما گئی۔ محبت کی تکمیل کی پہلی رات آخری ثابت ہوئی۔۔ ارمان ادھورے رہ گئے۔

ہوٹل مکڑی کے جال کے طرح پانی کے دوش پر بہتا چلا گیا، دریا کی محبت سمندر ہے۔۔ اپنی محبت تک پہنچنے کے لئے دریا طویل سفر کرتا ہے۔ اپنے بہاؤ کے رستے میں اس کو بھی کوئی رکاوٹ اچھی نہیں لگتی، وہ بھی راستے کی ہر دیوار ہر عمارت کو گراتا اپنی محبت پانے کے لئے آگے بڑھتا گیا۔

٭٭٭

Check Also

Samajhdar Hukumran

By Muhammad Zeashan Butt