1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Selab Kahani, Aghaz e Nao

Selab Kahani, Aghaz e Nao

سیلاب کہانی: آغاز نو

"بھائی جان! ہمیں بچوں کی بات مان لینی چاہئے۔۔ عابد نے اپنے بڑے بھائی زاہد سے کہا "ہم کب تک اس زمین کو سنبھالیں گے۔۔ آپ کے دونوں بیٹے زراعت میں بالکل انٹرسٹ نہیں رکھتے اور میرا بیٹا ابھی بہت چھوٹا ہے۔۔ "

عابد کو اللہ نے چار بیٹیوں اور پانچ سال کے طویل وقفے کے بعد کے بیٹا عطا کیا تھا۔ بچیاں جوان تھیں جبکہ بچہ اپنی ناسمجھی کے دور سے گزر رہا تھا۔

عابد کو اکثر اس بات کا ملال ہوتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے اپنی بیٹیوں سے محبت نہ تھی۔ مگر اس کے سب بھائیوں کے بیٹے جوان ہو چکے تھے۔ ان کے شانے پھر سے سیدھے ہو گئے تھے۔ مگر عابد خود کو بیٹیوں کے باجھ تلے دبا ہو محسوس کرتا تھا۔ وقت سے پہلے اس کی ہمت جواب دینے لگی تھی۔ زاہد نے سر جھکا کر چھوٹے بھائی کی بات سنی اور رضامندی میں سر ہلا دیا۔

بات کچھ یوں تھی کہ دونوں بھائیوں کے پاس کالام میں کچھ آبائی زمین تھی جس پر وہ کاشتکاری اور ڈیری فارمنگ کرتے تھے۔ آدھی زندگی اس زمین کے ساتھ وابستہ رہ کر گزر گئی مگر اب وہ بوڑھے اور ان کے بچے جوان ہو چکے تھے۔ زاہد کے دونوں بیٹے نوکری کرتے تھے اور عابد کا بیٹا ابھی بہت چھوٹا تھا۔ لہذا عابد چاہتا تھا کہ زمین بیچ کر حصہ بانٹ لیا جائے تاکہ وہ ان پیسوں سے کوئی کاروبار سیٹ کرلے۔

"بھائی جان۔۔ بچیاں جوان ہو گئی ہیں۔۔ جلد ہی ان کی شادیوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اب مجھ سے اتنی محنت کا کام نہیں ہوتا۔۔ میں کوئی ایسا کام کرنا چاہتا ہوں جس سے اچھی آمدنی ہو اور میں ان کے فرض سے سبکدوش ہو سکوں۔۔ "

زاہد بھی اب اتنی محنت کے قابل نہ رہے تھے اور ان کے بچے بھی چاہتے تھے کہ وہ زراعت کا کام چھوڑ دیں اور کوئی کاروبار کریں۔ لہذا سب کی رائے کا احترام کرتے ہوئے انھوں نے وہ زمین بیچ دی۔ دونوں کے حصے میں اسی اسی لاکھ سے زائد رقم آئی۔

زاہد جوان بیٹوں کے باپ تھے اس لئے مطمئن تھے۔ جانتے تھے کہ بیٹے اس سرمائے کو دگنا کر دیں گے مگر عابد کی راتوں کی نیند اڑ گئی تھی۔ کئی منصوبے ان کے ذہن میں تھے۔

"اب آپ ان پیسوں سے کیا کریں گے؟"عابد کی بیوی تبسم نے پوچھا۔

"میں سوچ رہا ہوں اس پیسے سے ہنڈی کرافٹ کا کام شروع کروں۔ میں نے کافی ریسرچ کی ہے۔۔ اس کام میں بڑا پرافٹ ہے۔ ٹورسٹ لوگ ہنڈی کرافٹ میں بڑی دلچسپی لیتے ہیں۔۔ "

تبسم سیدھی سادی اور صلح جو عورت تھی۔ اس کے لئے شوہر کی ہر بات حرف آخر تھی۔ وہ بولی "اللہ آپ کو کامیاب کرے۔۔ "

عابد نے شہر کے مرکزی بازار میں بڑے ہوٹلوں کے قریب ہنڈی کرافٹ کی ایک چھوٹی سی دکان کھول لی۔

یہ بازار سوات کے سرسبز علاقے کالام میں تھا۔ جہاں ہوٹلوں کے سامنے دریائے سوات ٹھاٹھیں مارتا بہہ رہا تھا۔ ٹورسٹ ان ہوٹلوں میں ٹہرنا پسند کرتے تھے۔ یہاں ہر وقت لوگوں کا رش رہتا تھا۔ سیاح سوات کے ٹھنڈے خوبصورت پانیوں کے دیوانے تھے۔ ہوٹلوں کے ساتھ ساتھ بنی یہ دکانیں بھی ان کی توجہ کا مرکز تھے۔ سارا دن لوگ ہوٹلوں سے نکل کر ان بازاروں میں چہل قدمی کرتے پائے جاتے تھے۔ زیادہ تر دکانیں ڈرائی فروٹس اور ہینڈی کرافٹ کی تھیں۔ ٹورسٹ مقامی خواتین کے ہاتھ کی بنی چیزوں میں کافی دلچسپی لیتے تھے۔ آس پاس کی دکانیں سب مال سے بھری ہوئی تھیں عابد نے کاروباری مسابقت کا خیال رکھتے ہوئے کافی سرمایہ خرچ کر کے اپنی دکان میں میعاری مال ڈالا تھا۔

تبسم عابد کو دن رات محنت کرتے دیکھ کر کبھی کبھی دکھی ہو جاتی تھی۔ خاندان میں سب کی پہلی پہلی اولادیں لڑکے تھے اور باپ کے شانہ بشانہ کھڑے تھے جبکہ اس کو اللہ نے ابتدا میں بیٹیوں سے نوازا تھا۔

" کاش! اللہ مجھے بھی پہلا پہلا بیٹا دیتا۔۔ آج باپ کے ساتھ کھڑا ہوتا۔۔ "

تبسم کی بڑی بیٹی حبیبہ یہ سن کر بولی "امی! بیٹیاں بھی بیٹوں سے کم نہیں ہوتیں۔۔ آپ دیکھئے گا۔۔ میں بابا کا ساتھ دوں گی۔۔ "

تبسم نے حیرت سے بیٹی کو دیکھا اور پوچھا "اچھا! تم کیا کرو گی؟ باپ کے ساتھ دکان جایا کرو گی؟"

حبیبہ ہنس دی اور بولی "اس میں بھی ہرج نہیں۔۔ مگر میں گھر میں ورکشاپ کھولوں گی۔۔ کاریگر خواتین کے ساتھ مل کر بابا کی دکان کے لئے مال تیار کرواؤں گی۔۔ جب ہم خود اپنا مال تیار کریں گے تو کم سرمایہ لگا کر زیادہ منافع حاصل کر سکیں گے۔۔ میری ایک ٹیچر آن لائن ہینڈی کرافٹ کا کام کرتی ہیں۔۔ انھوں نے مجھے اس سلسلے میں گائیڈ کیا ہے"۔

تبسم بیٹی کی فراست پر حیران رہ گئیں۔ انھیں پتہ ہی نہ چلا کب فراکیں پہنے والی یہ چھوٹی چھوٹی بیٹیاں اتنی بڑی ہو گئیں کہ کاروبار کے باریکیوں پر بات کرنے لگیں۔ جب کہ عابد یہ جان کر بہت خوش ہوا۔

سوات میں ہاتھ کا کام کرنے والی کاریگر خواتین کی کوئی کمی نہیں۔ جلد ہی حبیبہ کی ورکشاپ نے کام شروع کر دیا۔ عابد کی جیسے کمر سیدھی ہو گئی۔۔ اس کا مال تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے لگا۔ دکان رنگ برنگے ملبوسات، موتیوں سے بنے زیورات سے سج گئی۔ اس کی خوش اخلاقی اور معیاری سامان کی وجہ سے ٹورسٹ بازار میں اس کی دکان ڈھونڈتے ہوئے آنے لگے۔

زندگی کا تسلسل پھر سے قائم ہو گیا۔ ایک لگی بندھی روٹین کے ساتھ کام چلتا رہا۔ پھر بارشوں کا سیزن شروع ہو گیا۔ ٹورسٹ کم ہونا شروع ہو گئے۔ مگر عابد بے فکر تھا۔ جانتا تھا کہ سردی کی آمد آمد ہے۔۔ اب ٹورسٹ لوگ کی تعدادکم ہو تی جائے گی۔

"اس سال تو بارشوں نے ریکارڈ ہی توڑ دیا۔۔ کس قدر بارش ہو رہی ہے۔۔ " تبسم نے رات بادلوں کی گھن گرج سن کر کہا۔

حبیبہ کی ہنڈی کرافٹ کی ورکشاپ میں بھی کام رک گیا تھا۔ بارش کے باعث کاریگر خواتین کم کم آ رہی تھیں۔ مسلسل بارش اور نمی کی وجہ سے سامان کو بھی نقصان پہنچ رہا تھا۔ بے فکری اب فکر مندی میں تبدیل ہو رہی تھی۔ اور یہ فکر مندی بے سبب نہ تھی۔ ہوٹل اور بازار دریا کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔

پھر وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ پہاڑوں سے بہہ کر آنے والا پانی سیلاب کی شکل اختیار کر گیا۔ پتھر اور ریت نے اس سیلاب کو مزید تباہ کن بنا دیا۔ سیلاب نے اپنے راستے میں آنے والے عظیم و شان ہوٹل اور عمارتیں سب تہس نہس کر دیں۔

اس بازار کا بھی نام و نشان مٹ گیا جہاں عابد کی دکان تھی۔ اگر لوگ اسے پکڑ نہ لیتے تو شائد وہ اپنی دکان ڈھونڈنے سیلابی پانی میں اتر جاتا!

کئی دن تک لوگ روز ان اونچے ٹیلوں پر کھڑے اس سمت دیکھتے رہے جہاں کبھی اس کی دکانیں تھیں۔ وہاں موجود ہر شخص جانتا تھا کہ وہ صفر پر آ کر کھڑا ہو چکا ہے۔ یہ دکانیں اور ہوٹل ہی ان کا کل سرمایہ تھا۔ عابد بھی روز پتھروں پر جا بیٹھتا۔

"سب برباد ہو گیا۔۔ کچھ باقی نہ بچا۔۔ " کسی نے فریاد کی۔ " برباد تو ہونا ہی تھا۔۔

کوئی اور بولا سب اس کی طرف مڑ کر دیکھنے گے "میرے دادا کہتے تھے۔۔ دریا کے ساتھ ساتھ جہاں تک یہ گول پتھر ہیں۔۔ وہاں تک کوئی تعمیر نہ کرو۔۔ دریا کبھی نہ کبھی ان پتھروں کو دھونے ضرور آتا ہے۔۔ اب دیکھو ذرا!دریا کے ساتھ لگ کر ہوٹل اور دکانیں بنا لی ہیں۔۔ بر باد تو ہو نا ہی تھا۔۔ "

لوگ سر جھکائے کھڑے تھے۔ کاروبار بڑھانے کا لالچ انھیں اس حال تک پہنچا گیا تھا۔

"اگر ایسا ہے تو حکومت نے پابندی کیوں نہیں لگائی؟ یہ ہوٹل یہ دکانیں ایک دن میں تو نہیں بن گئیں؟"

ایک نوجوان غصہ سے بولا "حکومت کا کام قانون بنانا ہے۔۔ اور رشوت خور افسروں کا کام اس قانون کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنا ہے۔۔ مگر نشانہ کون بنتا ہے؟ ہم۔۔ غریب عوام۔۔ اب ہمیں ہی عقل سے کام لینا ہوگا۔۔ خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔۔ "

جب پانی اترا تو لوگوں نے اپنی دکانیں ڈھونڈنی شروع کیں۔ عابد کی دکان بھی مکمل غرق ہو چکی تھی۔ دکان کا دروازہ تو شائد دریا ساتھ ہی لے گیا تھا۔ قیمتی مال یا تو بہہ چکا تھا یا ریت اور کیچڑ سے لتھڑا پڑا تھا۔

عابد کو لگا وہ بوڑھا ہو گیا ہے، سیدھا کھڑا ہونااس کو محال تھا۔ وہ ہارے ہوئے جواری کی طرح سر جھکائے بیٹھا تھا

"نجانے اب میں یہ سب دوبارہ شروع کر پاؤں گا یا نہیں۔۔ ہاتھ تو خالی ہیں۔۔ " عابد نے تبسم سے کہا۔

اس کی بے بسی دیکھ کر تبسم کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ حبیبہ آہستہ سے باپ کے قدموں میں آ بیٹھی۔

"بابا ہمارے ہاتھ خالی ہیں۔۔ مگر ہاتھ ہیں تو سہی۔۔ "

عابد نے چونک کر حبیبہ کو دیکھا " ہاں بابا۔۔ ہمارا مال تباہ ہوا ہے۔۔ اس مال کو بنانے والے ہاتھ تباہ نہیں ہوئے۔۔ ہم یہ سب دوبارہ شروع کر یں گے۔۔ "

عابد نم آنکھوں سے حبیبہ کو دیکھتا رہا اور پھر بولا "بیٹا دکان تباہ ہو گئی ہے۔۔ اس کی تعمیر نو کے لئے سرمایہ چاہئے۔۔ اور سرمایہ میرے پاس نہیں ہے۔۔ میں نے اپنا سب کچھ اس دکان میں لگا دیا تھا۔۔ "

حبیبہ نے کہا "ہم پھر سے سرمایہ جمع کریں گے۔۔ بابا ورکشاپ میں کافی مال تیار رکھا ہے۔۔ میں آن لائن کام سے آغاز کروں گی۔۔ ہم پھر اس دکان سجا لیں گے۔۔ مگر ان ہماری دکان دریا کے اندر نہیں بلکہ کسی محفوظ مقام پر ہوگی۔۔ "

حبیبہ سے چھوٹی سعیدہ اور رفعیہ بھی باپ کے دائیں بائیں آ کھڑی ہوئیں۔

"آپ تنہا نہیں ہیں۔۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔۔ "

عابد نے بیٹیوں کو خود سے لپٹا لیا۔۔

"ہاں ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں۔۔ جب تک ہمارے ہاتھ سلامت ہیں۔۔ نیا آ غاز کیا جا سکتا ہے۔۔ "

٭٭٭

Check Also

Karachi Aur Varginha Ke Mausam

By Mubashir Ali Zaidi