Oo Chiri
او چری
"او بی بی۔ یہاں کچھ نہیں ہے۔ "خرانٹ نرس نے گرد اور مٹی سے اٹی صفورا کو جھڑکا۔ "تجھے کل بھی بتایا تھا۔ کوئی دوا نہیں ہے ہمارے پاس شہر لے جاؤ اسے، بڑے اسپتال۔ "صفورا حق دق سی کھڑی تھی اور نرس دوبارہ اپنے موبائل کی طرف متوجہ ہو گئی۔ کوئی بہت فنی ویڈیو تھی شائد۔ نرس نے ہنسنا شروع کر دیا تھا۔ زمین پر بیٹھاچودہ سالہ اللہ ڈنو سر اٹھا کر کبھی ماں کو تکتا کبھی نرس کو۔ تکلیف سہہ سہہ کر اب اس میں کراہنے کی ہمت بھی ختم ہو چکی تھی۔ صفورا کا دل جیسے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا تھا، نے پھر سے نرس کے پیر پکڑ لئے۔
"ادی خدا کا واسطہ۔ رحم کرو، شہر کیسے لے جاؤں؟ شہرجانے کے لئے پیسےنہیں ہیں میرے پاس۔ یہ بھی تو اتنا بڑا اسپتال بنایا ہے سرکار نے، کوئی تو دوا بھیجی ہوگی۔ ابھی تو کوئی دوا دے دو، بڑی تکلیف ہے، ساری رات رویا ہے"۔ "او چری، او چری، سمجھ نہیں آتی تجھے؟ نرس اپنی تفریح میں مداخلت پر آگ بگولہ ہو گئی۔ غصے سے صفورا کو پیچھے ہٹا کر بولی"نہیں ہے کوئی دوا۔ بس اسپتال کی بلڈنگ بنائی ہے۔ نہ دوا، نہ ڈاکٹر، کچھ نہیں بھیجا سر کار نے۔ مر جائے گا یہ ایسے ہی تکلیف سہہ سہہ کر، جا اب یہاں سے۔ "اکلوتے بیٹے کی موت کا تصور کر کے ہی صفورا کی ٹانگیں کانپ گئیں۔
٭٭٭
"نا حق مارا سائیں، بڑا ظلم کیا ہم پر"۔ بچل کی آنکھیں پھر سے برس پڑیں۔ موٹی توند والے تھانیدار نے بے زاری سے بچل کو دیکھا۔ فاقہ زدہ شکل پر آنسوؤں کی لکیریں بن چکی تھی۔ گرد آلود پیر بچل کی شدید محنت و مشقت کی کہانی سنا رہے تھے۔ خستہ حال لباس صاف بتا رہا تھا کہ رشوت دینے کو جیب میں کچھ نہیں ہے۔ تھانیدار کو پھر سے غصہ آنے لگا۔ "روکتے کیوں نہیں ہو اپنے بچوں کو؟ سائیں سرکار کے باغ میں گھس گیا تیرا بچہ۔ ان کے قیمتی پھل چرا کر کھا گیا۔ اس وقت کہاں تھا تُو؟ اب رو رہا ہے یہاں بیٹھا"۔ "سائیں !پھل ہی تو کھایا تھا۔ کوئی مال تو چوری نہیں کیا تھا۔ "
کمزور بچل کو بھی غصہ آ گیا"اتنی سی بات پر گولی مار دی۔ جان لے لی میرے بچے کی۔ میں، میں، شہر جاؤں گا۔ سڑک پر لیٹ کر جان دے دوں گا۔ مجھے انصاف چاہئے۔ "تھانیدار یک دم کھڑا ہوا۔ کرسی پیچھے پلٹ گئی۔ "تُو شہر جائے گا؟ سائیں سرکار کے خلاف احتجاج کرے گا؟"تھانیدار نے بچل کا گریبان پکڑ لیا"ہاں جاؤں گا، جاؤں گا شہر۔ کروں گا احتجاج۔ "بچل کا غم اب غصہ میں ڈھل چکا تھا۔ دو گھنٹے پہلے ہی اپنے بیٹے کی میت قبر میں اتار کر آیا تھااس کے دل کو کسی طرح قرار نہیں آ رہا تھا۔
تھانیدار نے اسے پیچھے دھکا دیا۔ "ہاں بابا۔ تُو جا، تُو شہر جا۔ سائیں سرکار کے خلاف احتجاج کر۔ تھانیدار دراز سے شراب کی بوتل نکالتے ہوۓ بولا۔ " بیٹیاں کتنی ہیں تیری؟"خوف سے بچل کی ٹانگیں کانپ گئیں۔
٭٭٭٭
" میرے نمبر سب سے زیادہ ہیں "۔ نوید مگسی کو اپنی قابلیت پر بڑا ناز تھا۔ بورڈ میں سب زیادہ نمبر اسی کے تھے مگر اس کی سیٹ وڈیرے کے بھتیجے کو دے دی گئی تھی اور نویدمگسی کے لئے یہ بات نا قابل برداشت تھی۔ "میرے نمبر سب سے زیادہ ہیں۔ اس سیٹ پر میرا حق ہے "۔ بڑے افسر نے ایک نظر حسین کو دیکھا اور دوسری نظر پیچھے کھڑے اس کے باپ حسین مگسی کے چہرے پر ڈالی۔ حسین مگسی ہاتھ جوڑے کھڑا تھا۔ "سرکار! بچے نے بڑی محنت کی۔ ساری ساری رات جاگ کر پڑھتا تھا۔ آپ تو جانتے ہیں سرکار، ہم غریب لوگ ہیں۔ بڑی مشکل سے اس کی تعلیم کا خرچ پورا کیا۔ "
افسر عجیب مشکل میں پڑا تھا بلکہ اب تو اسے ان دونوں باپ بیٹے پر غصہ آ رہا تھا دو دن سے پیچھا سا گھیرا ہوا تھا دونوں نے۔ "تو کیوں خرچ کیا؟ چری ہے کیا تُو؟ کیا کرے گا یہ پڑھ کر؟ نوکری کے لئے لاکھوں روپے دینے پڑتے ہیں۔ ہیں تیرے پاس؟ افسر نہیں لگے گا کبھی بھی۔ جاؤ یہاں سے اب۔ "اس نے ہاتھ کے اشارے سے جانے کے لئے کہا۔ "بھلے نہ لگے نوکری، نہ بنوں میں افسر، مگر یہ سیٹ میری ہےکسی وڈیرے کی نہیں میں ہی بیٹھوں گا اس پر۔ "نوید مگسی کا نوجوان خون جوش مار رہا تھا۔
کاغذات پر دستخط کرتے بڑے افسر کا ہاتھ ایک لمحہ کے لئے رکا"ہوش میں آ چری، ہوش میں آ۔ کس کا نام لے رہا ہے؟ سیٹ پر نہیں بیٹھے گا، تُو قبر میں لیٹے گا۔ کفن دفن کے لئے پیسے ہیں تیرے پاس؟"بڑے افسر نے حسین مگسی سے پوچھا۔ لہجہ اتنا سفاک تھا کہ حسین مگسی کی ٹانگیں کانپ گئیں۔