Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Khushi Ki Qeemat

Khushi Ki Qeemat

خوشی کی قیمت

فرانز کافکا بیسویں صدی کے بہترین ناول نگاروں میں سے ایک ہیں۔ ان کی وفات 1924 میں ہوئی۔ ان کی خدمات کا اعتراف، ان کی وفات کے بعد دنیا کے بہترین ادیب کے طور پر کیا گیا۔ چالیس سال کی عمر میں وہ ایک دن برلن کے ایک پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے، جب انھیں ایک چھوٹی بچی ملی جو رو رہی تھی۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ، اس کی سب سے پسندیدہ گڑیا کھو گئی ہے۔ کافکا نے بچی کے ساتھ مل کر گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ کافکا نے بچی سے کہا کہ، وہ کل وہیں ملے اور وہ ایک مرتبہ پھر گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔

اگلے دن جب انھیں گڑیا نہیں ملی تھی تو کافکا نے بچی کو ایک خط دیا، جو اس گڑیا نے لکھا تھا۔ خط میں لکھا تھا کہ"میری دوست، رو مت۔ میں دنیا گھومنے جا چکی ہوں اور میں تمھیں اپنے حیرت انگیز سفر کے بارے میں بتاؤں گی"۔ یوں ایک ایسی کہانی کی ابتدا ہوئی، جو کافکا کی زندگی کے اختتام تک جاری رہی۔ بچی سے ملاقاتوں کے دوران کافکا اس گڑیا کے خطوط پڑھتے، جس میں حیرت انگیز سفر اور مزے مزے کی کہانیاں ہوتیں، جسے وہ بچی اپنی گڑیا کے خطوط سمجھ کر پڑھتی اور اسے دلی سکون ملتا۔

بالآخر ایک دن کافکا نے اس بچی کو ایک گڑیا لا کر دی اور کہا کہ، اس کی گڑیا دنیا کے سفر سے برلن واپس آ گئی ہے۔ بچی نے کہا کہ، یہ گڑیا تو بالکل بھی میری گڑیا جیسی نہیں لگتی۔ کافکا نے بچی کو ایک اور خط دیا، جس میں گڑیا نے لکھا تھا کہ "دنیا بھر کے سفر سے میں تبدیل ہوگئی ہوں "۔ چھوٹی معصوم بچی نے گڑیا کو گلے سے لگایا اور خوشی خوشی اپنے گھر لے گئی۔ ایک سال بعد کافکا کی موت ہوگئی۔ کئی سال بعد جب وہ بچی اپنی جوانی میں داخل ہوئی، تو ایک دن گڑیا کو الٹتے پلٹتے اسے اس کے اندر سے فرانز کافکا کا دستخط شدہ ایک خط ملا جس پر لکھا تھا،

"ہر وہ چیز جس سے تم محبت کرتی ہو، ایک دن گم ہو جائے گی، لیکن بالآخر تمھیں کسی اور شکل و صورت میں ہی سہی، لیکن محبت ضرور ملے گی"۔

اچھا ئی غیرمتوقع طور پر واپس آ جاتی ہے۔ خوشی کی کوئی قیمت نہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں کسی کا سامان پکڑ لینا۔ کسی کے لئے لفٹ کا دروازہ روک کر چند لمحے رک جانا۔ دکان کا بھاری شیشہ کسی بزرگ کے لئے کھول دینا۔ بھاری وزن اٹھاتی کسی خاتون کا وزن اٹھا کر، چند قدم ساتھ چل دینا۔ ان سب چھوٹے چھوٹے کاموں کی کیا قیمت ہے؟ آپ کی زندگی کے چند لمحے۔ اور ان کاموں کا صلہ کیا ہے؟ دل سے نکلی دعا۔ ایک بھرپور مسکراہٹ۔ اور وہ مسکراہٹ بڑی دیر تک آپ کے ذہن میں رہ کر، آپ کو انبساط عطا کرتی ہے۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ

"اگر آپ ایک گھنٹے کے لیے خوشی چاہتے ہیں، تو ایک جھپکی لیں۔ اگر آپ ایک دن کے لیے خوشی چاہتے ہیں، تو مچھلی پکڑنے جائیں۔ اگر آپ ایک سال کے لیے خوشی چاہتے ہیں، تو خوش قسمتی کووارثت میں لے آئیں۔ اگر آپ زندگی بھر خوشی چاہتے ہیں، تو کسی کی مدد کریں۔"

مختلف تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ لوگ جنہوں نے خود کو "بہت خوش" بتایا ہے، وہ کسی نہ کسی طور پر رضاکارانہ خدمات انجام دیتے ہیں۔ سائنسی طور پر بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ، دوسروں کو خوش کرنے سے آپ کا دماغ ایسے کیمیکلز چھوڑتا ہے جو فرحت کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ خوشی کوئی مادی شے نہیں بلکہ یہ تو ایک ذہنی یا جذباتی حالت ہے۔ سب کچھ حاصل کر کے بھی، اگر کسی کا دل مطمئن نہیں تو اس نے کچھ حاصل نہیں کیا۔ اگر آپ نا خوش ہیں، تو کسی کو خوشی دے کر دیکھیں۔ وہی خوشی آپ تک واپس آئے گی۔

کوئی ضروری نہیں، آپ کی جیب لاکھوں روپوں سے بھری ہو تب ہی آپ کسی کی مدد کر سکتے ہیں۔ کسی انجان بچے کو ایک ٹافی تھما دیں۔ اس کی مسکراہٹ، آپ کا دل خوشی سے بھر دے گی۔ کسی گرتے کو آگے بڑھ کر سنبھال لیں۔ آپ خود کو زندگی کی دوڑ میں سنبھلا ہوا پائیں گے۔ پسینے سے شرابور کسی مزدور کو اپنی ٹھنڈے پانی کی بوتل سے ایک گلاس پانی پلا دیں۔ جو اطمینان اور خوشی آپ اس کے چہرے پر دیکھیں گے، وہ خوشی آپ اپنے دل میں بھی محسوس کریں گے۔

اپنا بچا ہوا کھانا پارسل کروا کر لے جانے کی بجائے، اس ویٹر کو دے دیں جو بڑی دیر سے آپ کی سیوا میں بھاگ بھاگ پر سامان لا رہا تھا۔ وہ خوشگوار حیرت جو اس کے چہرے پر آئے گی، آپ کو مدتوں یاد رہے گی۔ اس دنیا کو ہم جو بھی دیتے ہیں، وہ لوٹ کر ہم تک واپس آتا ہے۔ خوشیاں بانٹیں، تاکہ آپ تک خوشیاں واپس آئیں۔

Check Also

Khadim Hussain Rizvi

By Muhammad Zeashan Butt