Burqa Ho Ya Jeans
برقع ہو یا جینز
لباس کسی بھی انسان کی بنیادی ضرورت اور حق ہے۔ قدیم وقتوں سے ہی لباس انسانی زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ صرف سردی، گرمی سے بدن کو بچانے کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ انسان کی شان و شوکت کا مظہر بھی ہے اور اس کی شناخت بھی۔ بادشاہوں کے لئے چین کا ریشم اور اطلس و کمخواب کے ملبوسات زیب تن کرنا، ان کی شان و شوکت کے اظہار کے لئے لازمی ہوا کرتا تھا۔ ہر مذہب، ہر فرقہ اور ہر برادری اپنا مخصوص جامہ رکھتی ہے جو اس بات کی واضح اعلان ہے کہ پہنے والا فرد کس فرقے یا مذہب سے تعلق رکھتا ہے؟
لباس کی مخصوص وضع قطع بزبان خاموشی اپنی مکمل پہچان دیکھنے والے تک پہنچا دیتی ہے۔ ہر انسان کو اپنی ثقافت سے پیار ہوتا ہے اور مذہبی و نظریاتی اختلاف اپنی جگہ مگر ہر شخص لباس کے انتخاب کے معاملے میں آزاد بھی ہے۔ سو، خواہ پاکستان ہو یا ہندوستان ہر فرد اپنی ثقافت و روایات کے مطابق لباس کا انتخاب کرنا پسند کرتا ہے۔ خود اسلام نے اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی۔ بہت واضح احکامات موجود ہیں جن کے تحت کسی غیر مسلم کو جبراً اس کی مذہبی رسومات یا لباس کے استعمال سے نہیں روکا جا سکتا۔ خود رسول ِ خدا ﷺنے غیر مسلموں کے ساتھ حسن ِسلوک کی مثالیں قائم کی ہیں۔
ہندوستان سے ہمارے نظریاتی اختلافات اپنی جگہ مگر مسکان کے لئے ہندؤں کو آگے بڑھ کر اس کا ساتھ دینا ایک مستحسن عمل ہے۔ مذہبی شدت پسندی ہر جگہ موجود ہے۔ جی ہاں پاکستان میں بھی ہے بلکہ کچھ عرصے سے یہ مذہبی شدت پسندی مذہبی جنون کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ ذرا چشم تصور سے دیکھئے کہ مسکان کی جگہ کوئی غیر مسلم لڑکی ہوتی اور مقام ہندوستان کی بجائے پاکستان کا کوئی تعلیمی ادارہ ہوتا اور شدت پسند ہندؤں کی جگہ شدت پسند مسلمان ہوتے!اس صورت میں کیا ہوتا؟ صورت حال یقیناً مختلف ہوتی!
توہینِ رسالت، توہین ِشعائر اسلام کے نام پر اتنی قتل و غارت ہمارے ہاں ہو چکی ہے کہ اب کوئی صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی ہمت نہیں کرپاتا۔ پاکستان میں ہر کام اور ہر بات رسک بنتی جا رہی ہےاور کوئی بھی رسک نہیں لینا چاہتا۔ ایک وقت تھا جب ہندو متعصب کہلاتا تھا، کٹر سمجھا جاتا تھامگر آج مسلمان اور خاص طور پر پاکستان کا مسلمان شدت پسندی میں ہندوسے بھی آگے نکلتا نظر آتا ہے۔ غیر مذا ہب کا تو ذکر ہی چھوڑیں، غیر فرقہ بھی اس کے نزدیک کفر و شرک سے کچھ کم نہیں ہے۔ میرا مقصد ہندستان یا ہندؤں کی تعریف اور پاکستان کی مذمت ہرگز نہیں، مگر کیا ایک اچھا عمل ہم سب کے لئےقابلِ تقلید نہیں بن سکتا؟
بے شک مسکان نے ٹیپو کی بیٹی ہونے کا ثبوت دیا، اپنے مذہبی نظریہ کی حفاظت کی جو دشمن کے سامنے ڈٹ گئی، اپنی مذہبی آزادی کا کھلے عام اظہار کیالیکن اس میں یہ ہمت کس نے پیدا کی؟ پاکستان کی کوئی غیر مسلم بیٹی اتنی ہمت کیوں نہیں کر پاتی؟ اپنی اس بہادری کی پاداش میں مسکان نہ کالج سے نکالی گئی، نہ محلے سے۔ اسی لئے مسکان کو آج بھی اپنے جنم بھومی سے الفت ہےکیوں کہ اسی ہندوستان میں لاکھوں ہندوؤں نے اس کا ساتھ دیا۔ پردے کو ناماننے والوں نے بھی مسکان کے پردے کو مان لیا۔ کیا ہم بھی اپنے سے الگ نظریات رکھنے والے ساتھی، پڑوسی دوست کے نظریات کا احترام کر سکے؟
ہر انسان کا مذہب اور لباس اس کا ذاتی معاملہ ہے اور جب تک یہ معاملہ دوسروں کی زندگیوں میں براہ ِراست مخل نہ ہو، کسی کو دوسرے کو نشانہ بنانے کی اجا زت نہیں۔ مگر ہمارے ہاں تو سرِراہ خواتین کو لباس کی بنیاد پر نشانہ بنانے والے مرودوں کی بھی کمی نہیں۔ جینز پہنے کوئی خاتون اچانک مردوں کے لئے تفریح طبع کا سبب بن جاتی ہے اور وجہ کیا ہے؟ محض ایک لباس!
میرے عزیز!لباس اپنے پہنے والے یا پہنے والی کی شناخت ہے آپ کا مسئلہ نہیں ہے۔
خواہ وہ برقعہ ہو یا جینز!