Khuda Insan Se Kya Chahta Hai?
خدا انسان سے کیا چاہتا ہے؟
طربزاروں پہ کیا بیتی، صنم خانوں پہ کیا گزری
دل زندہ میرے ارمانوں پہ کیا گزری
عذاب کے لمحے، عذاب کے ساعتیں، عذاب کے دن، عذاب کی راتیں اور یوں ایک عذاب کا سال مکمل ہو چکا۔ پر بنی آدم اب بھی بددیانتی اور بدنیتی میں لگا ہوا ہے۔ وبا سے لاکھوں قیمتی جانیں زیر ہوگئی اور پلک جھپکنے میں اقوام جہاں کی معیشت تباہ ہوچکی ہے پر انسان اب بھی بضد ہے اوباش بن کے جینے پر۔ انسان میں کمی فہمی، بے قانونی اور کج فہمی اتنی ہے کہ اج بھی افسرز اپنے ماتحتوں سے نجی کام لیتے ہیں، اساتذہ طلباء کی نظر سے مسلسل اوجھل ہے، مولوی ہوس زیست میں مگن ہے، امراء من وسلوی کے مزے لوٹنے میں مگن ہے اور دانشوار بھی کرسی کو دیکھتے ہوئے قلم کو جنبش دیتے ہیں۔ الغرض بے قانون انتہا پر ہے ظلم بربریت کی انتہا نہیں۔ حدود و قانون الہی کے اثرات بھی غریب ہے۔ جب خدا انسان کی بدعملی دیکھتا ہے تو خدا عالم انسانیت پر عذاب نازل کردیتا تا کہ اس کے بندے ان طرف متوجہ ہو۔ خدا چاہتا کہ اس کے بندے قانون دان بنے کیونکہ خدا کی صفت بھی قانون ہے۔
خدا نے انسان کو تمام چیزوں سے استفادہ کرنے کا حکم دیا اور جن چیزوں سے روکا ہے اسمیں انسان کی ہی بلائی ہے۔ خدا نے دنیا کو انسانیت کے لیے خلق کیا ہے اور انسان کو اپنے لیے۔ بس انسان حدود کا پاس رکھتے ہوئے تمام چیزوں سے استفادہ کر سکتا ہے ہر حلال شی انسان کھا سکتا بشرط یہ کہ حلال طریقے سے کمایا ہو۔ انسان کے لیے لذت ذن بھی جائز ہے بشرط یہ کہ انسان نے صیغہ نکاح پڑا ہو۔ انسان اصولوں کو پاس رکھتے ہوئے سب کچھ کرسکتا خدا نے دنیا کو منظم بنا کے خلق کیا ہے اور خدا چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی ناظم بنے اور ہر کام قانون کی کسوٹی پر رکھ کر انجام دے۔
ایک شہر بغیر اصولوں کے نہیں چل سکتا بغیر کلیہ و قانون شہر کے مستضعف لوگ اب زر سے محروم رہ سکتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے اس منظم دنیا کو خدا بغیر قانون کے چھوڑدے بس خدا کا بھی ایک کلیہ قانون ہے جو قانون سے بالاتر ہونے کی کوشش کرتا ہے تو خدا انہیں اپنی عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے تا کہ اس بندہ ان کی طرف متوجہ ہو دنیا میں صبر کرنا سیکھے تا کہ النار خالدیں سے محفوظ رہے۔ خدا انسان سے امتحان تب لیتا ہے جب انسان امتحان دینےکے قابل ہوتا ہے اور جو لوگ امتحان میں مبتلا ہونے بعد بھی نہیں سمجھتے ان کو خدا عذاب ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے جو ظاہری عذاب سے بڑا ہے۔