Falsafa e Karbala
فلسفہ کربلا
خدا نے ہر دور میں انسانیت کی ہدایت کے لیے پیامبر کو مبعوث کیا اور ہر پیامبر کو ان کے دور کے مطابق ازمائش اور معجزات عطا کیں۔ خدا نے جس نبی کو سب سے زیادہ معزز بنایا انہیں سب سے زیادہ آزمائشوں میں مبتلا کیا اورآزمائش میں مبتلا کرنے کے بعد عظیم منصب عطا کیا۔ نوحؑ کو نافرماں قوم اور طوفان کی آزمائش دی، ابراھیمؑ کو جان، مال و اولاد کی امتحان سے گزارا، یعقوبؑ کو جدائی، یوسفؑ کو قید بند، حضرت داودؑ کو بیماری اور یونسؑ کی قربانی مچھلی کے پیٹ میں جانے کے بعد قبول ہوئی۔
تمام صاحب اعجاز نبیوں و ولیوں کو خدا نے سخت آزمائشیں دی جس کے نتیجے میں انہیں معجزات و کرامات عطا کیے تاکہ وقت کے طاغوتوں سے مقابلہ کر سکے۔ ان صاحب اعجاز نبیوں میں قربانی ابراھیم ؑبے مثال ہے ابراھیمؑ نے صدق دل سے اپنے جوان بیٹے کو قتل گاہ عشق لے آیا اور صابر باپ نے صابر بیٹے کو زبح ہونے کے لیے آمادہ کیا۔ باپ و بیٹے نے تمام امور دنیا کو ایک طرف کر کے اپنے وجود کو خالق اکبر کے حوالے کردئے اور ابراھیم ؑنے اپنے صابر بیٹے کی حلق پر چھری چلا دی۔ اس معنوی قربانی اور جوش وجذبہ سے معمور باپ بیٹے کے نام خدا کا پیغام آتا ہے۔
تم نے اپنے خواب کو سچ کر دیکھایا ہم اسی طرح حسن عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔ (سورہ الصفات ایت ۱۰۵)
ابراھیمؑ کی اس قربانی نے تمام انسانوں کو حقیقی قربانی کی طرف متوجہ کیا۔ بس خدا کے ہاں اس بندے کی قربانی قبول ہے جو حسن عمل کرتا۔ خدا نے حسن عمل کے بدلے جزا کا وعدہ کیا ہے۔ اگر ہم لاکھوں روپے خرچ کریں اور اس میں ریاکاری مقصود ہو تو اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں کیونکہ خدا اپنی ذات کے ساتھ کسی کو شریک کرنا پسند نہیں کرتا۔ اور خدا کے ہاں عمل کیquality دیکھی جاتی ہے quantity نہیں۔ خصوصا جو قربانی قربانی سے کئی ہفتے پہلے لاتے ہیں اور نمود ونمائش کرتے ہیں اور قربانی کے بعد عزیز اقرابا، غریب اور ہمسایہ کو شریک نہیں کرتے اور قربانی کو شکم سیری کا زریعہ بناتے ہیں بلا کیسے ان کی قربانی رب کے ہاں قابل قبول ہوسکتی ہے جب کہ قران میں خدا نے محسنین کو جزا دینے کا وعدہ کیا ہے۔
محترم قارئین! انسان کا نفس انسان کو یاد خدا سے دور کر دیتا ہے جس کی وجہ سے انسان ہوس پرستی کی راہ اپناتا اور مقصد کو چھوڑ کے رسومات کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ قربانی اصل میں انسان کو مقصد اور مقصود کی طرف لے جاتی ہے اگر ہم قربانی کو شکم سیری اور ریاکاری کے لیے استعمال کرینگے تو پھر رسومات کی حد تک قربانی کو مانتے ہیں اور فسلفہ قربانی سے نابلد ہیں۔ حقیقی معانوں میں قربانی ہمیں لوازمات زیست سے نکال کر قرب خداوندی کی طرف متوجہ کریں۔ بددیانتی، جھوٹ، انا پرستی، تعصب اور منافرت کی بت کو ہمارے وجود سے نکال پھنکنے۔ اگر زندگی بھر قربانی کرنے کے بعد نفس کی قربانی نہیں دے سکتے ہیں تو پھر فسلفہ قربانی چھوڑ کے ہم محض رسومات پر عمل کر رہے ہیں۔