Alvida Aye Mohsin e Millat
الوداع اے محسن ملت
ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1 اپریل 1936 کو بھوپال انڈیا میں پیدا ہوئے ان کی والدہ زلیخا بیگم ایک گھریلو خاتون تھیں ان کے والد عبدالغفور ایک ماہر تعلیم تھے ۔ انہوں نے ہندوستانی وزارت تعلیم میں خدمات سرانجام دیئے ۔ 1935 میں ریٹائر ہونے کے بعد مستقل طور پر بھوپال میں آباد ہوئے۔ 1947 میں تقسیم پاکستان کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آئے اور 1952 میں کراچی میں رہائش اختیار کی۔ کراچی میں رہائش اختیار کرنے کے بعد تعیلمی اہمیت کو نظر میں رکھتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے والد ڈاکٹر کو ڈی جے سائنس کالج میں داخلہ کیا۔ ایف ایس سی پاس کرنے کے بعد 1956 میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فزکس میں داخلہ لیا اور 1960 میں گریجویشن مکمل کی اور کچھ دنوں کے لیے بطور انسپکٹر سٹی گورنمنٹ کام کیا۔
1961 میں برلن یونیورسٹی کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے جرمنی چلے گئے۔ اس کے بعد 1965میں ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں داخلہ لینے کے لیے نیدرلینڈ کا سفر کیا اور وہاں سے 1967 میں میٹالرجی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کیں۔ کیتھولک یونیورسٹی آف لیون سے میٹالرجیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ مکمل کیں۔ 1972 میں مارٹن جے برییرز کے کہنے پر ڈاکٹر صاحب نے ایمٹرڈیم فزکس ڈائنامکس ریسرچ لیباٹری میں شمولیت اختیار کی۔ جب 1970میں ہالینڈ نے جوہری بجلی گھروں میں یورینیم افزائش کے لیے سیٹر فیوج طریقہ اختیار کیا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس طرح متوجہ ہوئے اور ایک سینئر سائنسی عملے کے طور پر اس میں شامل ہوئے اور یورنیکو میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد فزکس لیباٹری چھوڑ کر یورینیم دھاتوں پہ تجربے کئے۔
70 کی دہائی میں جب یورنیکو نے zippe طریقہ کار کو یورینیم افزائش کے لیے استعمال کیا تو fissile isotopesU31 کو fissile U238 سے الگ کر کے Uf6 کو 100000ph میں گھمانے کی کوشش کی اور اس تجربے میں یورنیکو کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس میں بنیادی تحقیق ڈاکٹر صاحب کی تھیں تب ہی کامیابی کے فورا بعد فزکس میں موجود ریاضی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اورنیکو نے ذپ سنٹری فیوج تک رسائی دی۔ جس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحقیق کو وسیع پیمانے پر پھیلا دیا۔
1974 میں پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان سخت مشکلات کے بوجھ تلے دبہ چکا تھا اور تو اور ہندوستان ایٹمی پروگرام بنا چکا تھا۔ اب پاکستان کو بھی ناقابل تسخیر بننا ضروری تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نوید سحر بن کر افق پاکستان پر نمودار ہوئے اور اپنی دھرتی ماں کی تحفظ کے خاطر ایک خفیہ خط 1974 کو وزیر اعظم بھٹو کے نام ارسال کیا اور ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اپنی اہلیت سامنے رکھ دی۔ جس کے بعد پاکستان کے خفیہ اداروں کے ساتھ بھٹو نے ایک میٹنگ کیں اور میٹنگ کے بعد خفیہ اداروں نے ڈاکٹر صاحب کو اس کام کے لیے نااہل قرار دیا۔ لیکن مسٹر بھٹو مطمئن نہیں تھے اور پاکستان ایٹامک انرجی کے سربراہ کو حکم دیا کہ ایک تحقیقی ٹیم بنائے اور ڈاکٹر صاحب سے ملنے کے لیے بھیج دے ڈاکٹر منیر احمد نیازی نے بشیر احمد محمود کی سربراہی میں ایک ٹیم بنائی اور ڈاکٹر سے سے ملنے کے لیے بھیج دیا۔
ڈاکٹر سے ملاقات کے بعد پاکستان اٹامک انرجی کے سربراہ جناب منیر احمد نیازی کو آگاہ کیا۔ اور یوں ڈاکٹر نے یورنیکو سے چھٹی لی اور دسمبر 1974 کو پاکستان آئے اور پی اے سی کے ساتھ کام شروع کیا۔ لیکن منیر احمد نیازی کے ساتھ ساتھ اختلافات ہوئے کیونکہ منیر نیازی صاحب یورینیم افزائش کے حق میں نہیں تھے اور ڈاکٹر صاحب یورینیم افزائش کے زریعہ سے ایٹامک منصوبے کو ترتیب دینا چاہتے تھے۔ بھٹو نے دونوں کے اختلافات کو دیکھتے ہوئے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری کی بنیاد رکھی۔ اور ڈاکٹر صاحب کو اس کا سربراہ بنایا۔ دن ورات کی محنتوں کے بعد بااخر یورینیم افزا کرنے میں ڈاکٹر صاحب کی ٹیم کامیاب ہوئی اور چائنہ کے ساتھ مل کر پاکستان نے blueprints پہ بھی کام مکمل کیا۔
ڈاکٹر نے صاحب اسکے فورا بعد پاکستان ایٹمی پروگرام کی حکمت عملی تیار کی۔ اور اس کے لیے ریڈار سیٹم کو بہتر بنانا ضروری تھا سپارکو کو منظم کیا۔ اور نوے کی دہائی میں پاکستان کا پہلا اسپیس اسٹیلائٹ لانچ وہیکل (PSLV) اور اسٹیلائیٹ لانچ وہیکل کو روانہ کیا اور اس کے بعد پاکستان نے بیلسٹک میزائل کے کامیاب تجربے کیں اور یہ سب ڈاکٹر کی کوششوں سے ممکن ہوا۔ یہی نہیں بلکہ 1998 نواز شریف دور حکومت میں ایٹمی دھماکا کرکے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانا۔
2004 میں مشرف نے امریکہ کے دباو میں اکر ڈاکٹر کو نظر بند کردیا اور یوں 2009 تک قید سلاسل رہے۔ ڈاکٹر جھکے نہیں اور ہمیشہ ایک محب الوطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کی ترقی و سالمیت کے لیے کام کیا اور انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے شبعوں میں نئے اصول متعارف کرائے۔
انھوں نے غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں میٹالرجی اور میٹربل سائنس متعارف کرایا اس کے علاوہ بھی پاکستان کے مختلف یونیورسٹیز میں آپ نے میڈٹالرجیکل انجینئرنگ کورس دئے۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کی خود مختاری پر آنچ آنے نہ دیا اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا اور دنیا کے سامنے پاکستان کو پہچان دی۔ پاکستان مسلم دنیا کا واحد ایٹامک طاقت رکھنے والا ملک تھا اس لیے مسلم دنیا نے دل کھول کر پاکستان کی مدد کی اور پاکستان کو معاشی بدحالیوں سے نکالنے کی حد کا لامکان کوششیں کیں۔ اگر اج پاکستان ناقابل تسخیر ہے تو یہ سب ڈاکٹر کی ہی مرہون منت ہے۔ مگر ہم نہیں بہت فراموش کیا واقع ہم مثل کوفی ثابت ہوئے۔بقول شاعر ندیم قاسمی:
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ