Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Noor Hussain Afzal/
  4. Waqia e Meraj Un Nabi Tareekh e Insane Ka Sab Se Taweel Tareen Safar (2)

Waqia e Meraj Un Nabi Tareekh e Insane Ka Sab Se Taweel Tareen Safar (2)

واقعۂ معراج النبی ﷺ تاریخ انسانی کا سب سے طویل ترین سفر (2)

(6) معراج میں دیدارِ الٰہی:

زمانہ قدیم سے اختلاف چلا آ رہا ہے، کہ حضور اکرم ﷺ شبِ معراج میں دیدارِ خداوندی سے مشرف ہوئے یا نہیں؟ اور اگر رؤیت ہوئی، تو وہ رؤیت بصری تھی یا رؤیت قلبی تھی؟ البتہ ہمارے لیے اتنا مان لینا انشاءاللہ کافی ہے کہ یہ واقعہ برحق ہے، یہ واقعہ رات کے صرف ایک حصہ میں ہوا، نیز بیداری کی حالت میں ہوا ہے، اور حضور اکرم ﷺ کا یہ ایک بڑا معجزہ ہے۔

(7) قریش کی تکذیب اور ان پر حجت قائم ہونا:

رات کے صرف ایک حصہ میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیاء کرامؑ کی امامت میں وہاں نماز پڑھنا، پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا، انبیاء کرامؑ سے ملاقات اور پھر اللہ جل شانہ، کی دربار میں حاضری، جنت و دوزخ کو دیکھنا، مکہ مکرمہ تک واپس آنا، اور واپسی پر قریش کے ایک تجارتی قافلہ سے ملاقات ہونا، جو ملک شام سے واپس آ رہا تھا، جب حضور اکرم ﷺ نے صبح کو معراج کا واقعہ بیان کیا، تو قریش تعجب کرنے لگے، اور جھٹلانے لگے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ اگر نبی کریم ﷺ نے یہ بات کہی ہے، تو سچ فرمایا ہے۔

اس پر قریش کے لوگ کہنے لگے، کہ کیا تم اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہو؟ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا، کہ میں تو اس سے بھی زیادہ عجیب باتوں کی تصدیق کرتا ہوں، اور وہ یہ کہ آسمانوں سے آپ کے پاس وحی آتی ہے۔ اسی وجہ سے آپؓ کا لقب صدیق پڑ گیا۔ اس کے بعد جب قریشِ مکہ کی جانب سے حضور اکرم ﷺ سے بیت المقدس کے احوال دریافت کیے گئے، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیت المقدس کو حضور اکرم ﷺ کے لیے روشن فرما دیا، اُس وقت رسالت مآب ﷺ حطیم میں تشریف فرما تھے۔ قریشِ مکہ سوال کرتے جا رہے تھے، اور نبی کریم ﷺ جواب دیتے جا رہے تھے۔

(8) سفرِ معراج کے بعض مشاہدات:

اس اہم و عظیم سفر میں رحمت اللعالمین ﷺ کو جنت و دوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہگاروں کے احوال بھی دکھائے گئے، جن میں سے بعض گناہگاروں کے احوال اس جذبہ سے تحریر کیے جا رہے ہیں، کہ ان گناہوں سے ہم خود بھی بچیں، اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔

(9) کچھ لوگ اپنے سینوں کو ناخنوں سے چھیل رہے تھے:

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی، میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے، اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔ میں نے جبرائیلؑ سے دریافت کیا، کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، کہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں۔ (یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔ (ابوداود)

(10) سود خوروں کی بدحالی:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، کہ جس رات مجھے سیر کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر بھی گزرا، جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے، جیسے (انسانوں کے رہنے کے) گھر ہوتے ہیں، ان میں سانپ تھے، جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آ رہے تھے۔ میں نے کہا کہ اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود کھانے والے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح)

کچھ لوگوں کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے تھے۔

رحمت اللعالمین ﷺ کا گزر، ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا، جن کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے تھے، کچل جانے کے بعد پھر ویسے ہی ہو جاتے تھے، جیسے پہلے تھے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا، ختم نہیں ہو رہا تھا۔ رسالت مآب ﷺ نے پوچھا، یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرائیلؑ نے کہا، کہ یہ لوگ نماز میں کاہلی کرنے والے ہیں۔

(انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج، مولانا عاشق الہٰیؒ)

(11) زکوٰۃ نہ دینے والوں کی بدحالی:

نبی کریم ﷺ کا گزر، ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا، جن کی شرمگاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے ہیں، اور اونٹ و بیل کی طرح چرتے ہیں، اور کانٹے دار و خبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھا رہے ہیں، نبی کریم ﷺ نے پوچھا، یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرائیلؑ نے کہا، کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ہیں۔ (انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج، مولانا عاشق الہٰیؒ)

(13) سڑا ہوا گوشت کھانے والے لوگ:

نبی کریم ﷺ کا گزر، ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا، جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے، اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے، یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں، اور پکا ہوا گوشت نہیں کھا رہے ہیں، رسالت مآب ﷺ نے دریافت کیا، یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرائیلؑ نے کہا، کہ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے پاس حلال اور طیب عورت موجود ہے، مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورت کے ساتھ رات گزارتے ہیں، اور صبح تک اسی کے ساتھ رہتے ہیں، اور وہ عورتیں ہیں جو حلال اور طیب شوہر کو چھوڑ کر کسی زانی اور بدکار شخص کے ساتھ رات گزارتی ہیں۔ (انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج، مولانا عاشق الہٰیؒ)

(14) سدرۃ المنتہیٰ کیا ہے؟

احادیث میں"سدرۃ المنتہٰی" اور "السدرۃ المنتہٰی" دونوں طرح استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں"سدرۃ المنتہٰی" استعمال ہوا ہے۔ "سدرۃ" کے معنی بیر کے ہیں اور "منتہٰی" کے معنی انتہا ہونے کی جگہ کے ہیں۔ اس درخت کا یہ نام رکھنے کی وجہ صحیح مسلم میں اس طرح ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، کہ اوپر سے جو احکام نازل ہوتے ہیں، وہ اسی پر منتہی ہو جاتے ہیں، اور جو بندوں کے اعمال نیچے سے اوپر جاتے ہیں، وہ وہاں پر ٹھہر جاتے ہیں، یعنی آنے والے احکام پہلے وہاں آتے ہیں، پھر وہاں سے نازل ہوتے ہیں، اور نیچے سے جانے والے جو اعمال ہیں، وہ وہاں ٹھہر جاتے ہیں، پھر اوپر اٹھائے جاتے ہیں۔

(15) وضاحت:

واقعۂ معراج النبی ﷺ سے متعلق کوئی خاص عبادت ہر سال ہمارے لیے مسنون یا ضروری نہیں ہے۔ تاریخ کے اس بے مثال واقعہ کو بیان کرنے کا اہم مقصد یہ ہے، کہ ہم اس عظیم الشان واقعہ کی کسی حد تک تفصیلات سے واقف ہوں، اور ہم اُن گناہوں سے بچیں، جن کے ارتکاب کرنے والوں کا برا انجام نبی اکرم ﷺ نے اس سفر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا، اور پھر اُمت کو بیان فرمایا۔

(16) شب معراج کی عبادت:

سوال: واقعہ معراج، 27 رجب کی عبادت کے بارے میں شرعی نقطہ نظر کی وضاحت فرما دیجئے؟

جواب: واضح رہے کہ حتمی طور پر یہ بات طے نہیں ہے، کہ واقعہ معراج کس مہینہ اور کس شب میں پیش آیا، اس حوالے سے مختلف اقوال منقول ہیں، اپنی طرف سے یقینی طور پر متعین کرکے کسی رات کو شبِ معراج قرار دینا درست نہیں ہے، عوام میں مشہور یہ ہے، کہ رجب کی ستائیسویں رات ہے۔ تاہم اس شب میں خصوصیت سے کوئی الگ نماز یا عبادت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، اور خصوصیت کے ساتھ اس رات میں عبادت کا اہتمام کرنا، اور لوگوں کو ترغیب دینا درست نہیں۔

لہٰذا 27، رجب کو حتمی طور پر شبِ معراج کہنا درست نہیں، بلکہ شبِ معراج کے بارے میں چند اقوال منقول ہیں۔

بعض نے 12 ربیع الاول، بعض نے 17 ربیع الاول، بعض نے 27 ربیع الاول، بعض نے 17 ربیع الآخر، بعض نے 27 ربیع الآخر، بعض نے 27 رجب، بعض نے 17 رمضان، بعض نے 27 رمضان اور بعض نے 27 شوال کو شبِ معراج قرار دیا ہے۔

ان اقوالِ کثیرہ میں سے کسی تاریخ کے لیے کوئی وجۂ ترجیح نہیں، چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:

"وقد اختار الحافظ عبد الغني بن سرور المقدسي في سیرته أن الإسراء کان لیلة السابع والعشرین من رجب وقد أورد حدیثًا لایصح سنده، ذکرناه في فضائل شهر رجب"۔ (البدایة والنہایة، ج: 3، ص: 109)

اسی طرح اس رات میں کوئی خاص عبادت بھی مشروع نہیں۔ اس رات کو عبادت کی رات سمجھنا اور ا س رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ متعین کرنا، اور اُسے مسنون سمجھنا شریعت کے مطابق نہیں، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اگر کسی شخص کی عادت ہے، کہ وہ رات کو عبادت کرتا ہے، اور ہفتہ واری روزہ رکھتا ہے، تو اس کو اجازت ہوگی۔ اسی رات اور دن کو مخصوص کرکے عبادت کرنا درست نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم

Check Also

Sunen, Aaj Kya Pakaun

By Azhar Hussain Azmi