Umar Ki Riaya Parwari, Hukumrano Ke Liye Asbaq (2)
عمرؓ کی رعایا پروری، حکمرانوں کیلئے اسباق (2)
رعایا کی خبر گیری کے لئے رات کو گشت کرتے۔ ایک شب گشت کر رہے تھے کہ ایک گھر سے بچے کے رونے کی آواز آئی۔ آپؓ نے بچے کی ماں سے کہا کہ بچے کو چپ کرائے، اور کھانے پینے کے لئے کچھ دے۔ بچے کی ماں نے کہا کہ بچے کا دودھ چھڑا رہی ہوں، اس لئے وہ رو رہا ہے کیونکہ امیرالمومنین عمرؓ نے حکم جاری کیا ہوا ہے، کہ جب تک بچہ دودھ پیتا رہے گا، اس کا وظیفہ نہیں لگ سکتا، میں اس کا دودھ چھڑا رہی ہوں، تاکہ وظیفہ لگ سکے۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ سخت افسردہ ہوئے، اور فرمایا کہ ہائے افسوس عمرؓ نے کتنے بچوں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ واپس جا کر اعلان کروا دیا کہ جس دن سے بچہ پیدا ہو گا، اسی دن سے وظیفہ جاری ہو گا۔
ایک بار مدینہ میں گشت کر رہے تھے کہ بچوں کے رونے کی آواز سنی، تحقیق پر معلوم ہوا کہ گھر میں فاقے ہیں اور تین دن سے بچے بھوکے ہیں اور ماں ان کو بہلانے کے لئے خالی ہانڈی میں چمچ پھیر رہی ہے، آپؓ فوراً واپس آئے، بیت المال سے آٹا، گھی، گوشت اور کھجوریں لیں اور اپنی پیٹھ پر اٹھا کر خود ان کے گھر پہنچے اور عورت سے کہا کہ کھانا پکا کر بچوں کو کھلاؤ۔ جب تک بچوں نے کھانا نہ کھا لیا، آپؓ وہاں بیٹھے رہے۔ عورت اس حسن سلوک سے بہت متاثر ہوئی اور کہا کہ امیرالمومنین ہونے کے مستحق آپ ہیں نہ کہ حضرت عمر ؓ۔ آپ نے فرمایا جب صبح بیت المال آؤ گی تو مجھے ہی وہاں پاؤں گی۔
ایک بار ملک شام کے سفر پر تھے۔ ایک خیمہ دیکھ کر آپؓ رکے اور ایک بڑھیا سے اس کا حال پوچھا کہ امیرالمومنین عمرؓ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ بڑھیا نے کہا مجھے اس کے ہاں سے آج تک کچھ نہیں ملا۔ آپؓ نے فرمایا کہ آپ اتنی دور ویرانے میں رہتی ہیں، عمرؓ کو آپ کے حال کا کیا علم؟ بڑھیا نے جواب دیا اگر ہم جیسے لوگوں کا حال معلوم نہیں تو خلافت کیوں کر رہا ہے؟ یہ سن کر آپؓ رو پڑے۔
آپؓ رعایا کی تکلیف پر بہت پریشان ہو جاتے۔ 18 ہجری میں جب عرب میں قحط پڑا، تو آپؓ نے گوشت، مچھلی اور تمام لذائذ اپنے لئے ترک کر دیئے۔ بیت المال کا تمام مال متاثرین میں تقسیم کر دیا اور بار بار بطور انکساری کہتے کہ ایسا میری شامت اعمال کی وجہ سے ہے۔ پھر آپؓ نے صوبہ جات کے تمام گورنرز کو لکھا کہ غلہ، کھانے پینے کی اشیاء اور لباس بھیجیں۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ نے شام سے ایک ہزار اونٹ، حضرت عمرو بن العاصؓ نے مصر سے 20 جہاز غلہ بھیجا۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے قحط زدہ لوگوں کی فہرست بنائی اور تمام متاثرین میں تقسیم کیا، اور جب تک وہ اس مصیبت سے نہ نکلے ان کی مدد جاری رکھی۔ (تاريخ يعقوبی، 3: 177)
قول علیؑ: عمرؓ مستجاب الدعوات ہیں۔
آپؓ کے زہد و عبادت، تقویٰ و طہارت اور علم و فضل کی حضرت علیؓ بہت تعریف کرتے اور فرمایا کرتے عمرؓ جب بھی اللہ سے مانگتا ہے، اللہ اس کو رد نہیں فرماتا۔ واقدی لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن قرط حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کی کہ میں یرموک کی جنگ میں شرکت کے لئے جا رہا ہوں دعا فرمائیں، آپؓ نے فرمایا اے ابن قرط! کیا تو امیرالمومنین سے دعا کرا کر نہیں آئے؟
کیا تجھے علم نہیں کہ حضرت عمرؓ جب اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتا ہے، وہ کبھی رد نہیں ہوتی، اور نہ ہی ان کی دعا کے درمیان کوئی حجاب حائل ہوتا ہے، کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اکرم ﷺ نے یہ فرمایا، کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتا، کیا قرآن نے ان کی رائے کی موافقت نہیں کی، کیا حضور نبی اکرم ﷺنے یہ نہیں فرمایا کہ اگر آسمان سے عذاب نازل ہو تو عمر بن خطابؓ کے سوا کوئی نہ بچے۔
اے ابن قرط! کیا تیرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ آیات بینات کا نزول ان کے حق میں ہوا ہے، اس زمین پر وہ عابد، زاہد اور متقی شخص ہیں، اور کیا وہ حضرت نوحؑ پیغمبر کے مشابہ نہیں ہیں، کیا وہ سلف صالحین کے متبع نہیں ہیں، کیا وہ مرتبہ قبولیت رضا مندی تک نہیں پہنچے؟ اے ابن قرط! اگر عمرؓ نے تیرے لئے دعا کر دی تو وہ بارگاہ ربّ العزت میں ضرور قبول ہو گی۔ (فتوح الشام، 274)
خلیفہ اور راتوں کو کرے گشت
عجب کچھ عدل تھا عمرؓ کا